اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ برطانیہ سے 15 روز تک مجرموں کی حوالگی کے معاہدے پر دستخط ہوں گے۔ نواز شریف کے لیے مسائل کے دن ہوں گے۔
دنیا نیوز سے گفتگو میں میاں نواز شریف کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپوزیشن سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں، آج کے فیصلے سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ بات کہاں جا رہی ہے۔ اپوزیشن عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کو افسوس ہے کہ نواز شریف دھوکے سے فرار ہوئے، وہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے تھے، انہوں نے اپنا کیس خود خراب کیا۔ مریم نواز نےعندیہ دیا تھا کہ ان کے والد صحتمند ہیں۔ یہ سب باتیں ان کے خلاف جا رہی ہیں۔ نواز شریف کو واپس لانے سے بہتری آ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف واپسی کیلئے حکومت کو کامیابی ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو پہلی فرصت میں واپس لایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی اپیلیں خارج کردیں، سزائیں بحال
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے ان کی سزاؤں کو بحال کر دیا ہے۔
نوازشریف نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں العزیزیہ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں تاہم بیرون ملک جانے کے بعد سے وہ عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے۔ نواز شریف کو متعدد بار پیشی کے نوٹسز جاری کیے گئے اور عدم پیشی پر اشتہاری قرار دے دیا گیا۔
ان کے وکلا نے موقف اختیار کیا تھا کہ نواز شریف کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ بیرون ملک سے اپنا علاج چھوڑ کر پاکستان میں عدالت کے روبرو پیش ہوں، لہذا ان کی عدم موجودگی میں سماعت جاری رکھی جائے۔ ادھر نیب نے نواز شریف کی اپیلیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی۔
پانامہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیلیں خارج کر دی گئیں جس کے بعد ان کی سزائیں بحال ہو گئی ہیں، نواز شریف پہلے ہی عدالتی مفرور قرار دیئے جا چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈویژن بینچ میں جسٹس عامر فاروق اور محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدم حاضری کی وجہ سے نوازشریف کوکوئی ریلیف نہیں مل سکتا، ان کی سزائیں بحال ہوچکی ہیں، کیپٹن (ر)صفدر،مریم نوازعدالت میں پیش ہورہے ہیں کیس سے نوازشریف کوالگ کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف واپس آئیں یا پکڑے جائیں تو اپیل بحالی کی درخواست دے سکتے ہیں۔ نواز شریف کے مفرور ہونے کی وجہ سے درخواستیں خارج کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی تھی، 131 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف العزیزیہ اور ہل میٹل کے اصل مالک ثابت ہوئے ہیں جب کہ وہ اثاثوں کے لیے جائز ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے۔ نواز شریف کی جانب سے ان کے وکلا نے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس قانونی نکتے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا کہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں ان کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی احتساب عدالت سے سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے مختلف عدالتی نظیریں پیش کیں اور کہا کہ اپیل بھی ٹرائل کا ہی تسلسل ہے، جیسے ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل نہیں چل سکتا اسی طرح اپیل پر بھی سماعت نہیں ہو سکتی۔ کسی غیر حاضر شخص کا کیس میرٹ پر طے کر دیا جائے تو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ اپیل کنندہ کے وکیل نہیں، عدالتی معاون ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا میں بیلنس دلائل دوں گا اور عدالت کی معاونت کروں گا۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ جن عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات پیش کیے گئے وہ غیر موجودگی میں ٹرائل سے متعلق ہیں۔ یہاں معاملہ مختلف ہے کیونکہ ٹرائل نواز شریف کی موجودگی میں ہوا اور انہوں نے خود اپیلیں فائل کیں۔
انہوں نے استدعا کی کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف دونوں اپیلیں خارج کی جائیں تاہم جو اپیل کنندگان مفرور نہیں اور کورٹ کے سامنے ہیں، عدالت ان کی اپیلیں سن سکتی ہے۔
عدالت نے ایک موقع پر اعظم نذیر تارڑ کو کیس کی نوعیت پر بات کرنے سے روک دیا اور کہا ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اپیل کنندہ کون ہے؟ ہم کورٹ آف لا ہیں اور ہم نے صرف قانون کے مطابق چلنا ہے۔