حکومت کی 3 سالہ کارکردگی، قرضوں تلے دبی معیشت

Published On 26 August,2021 09:05 pm

لاہور: (مہروز علی خان، طارق حبیب، وقاص بٹ) اگست 2018ء میں تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل مالی سال 2018ء میں ملک 5.5 فیصد کی شرح کے ساتھ ترقی کر رہا تھا، تاہم حکومت میں آنے کے بعد ملکی ترقی کی شرح میں بتدریج گراوٹ دیکھنے میں آئی اور مالی سال 2019 میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 166 فیصد کمی کے ساتھ 2 فیصد پر آ کھڑی ہوئی۔

اسی طرح گزشتہ مالی سال میں کورونا وباءکے سبب لگنے والے عالمی لاک ڈاؤن کے سبب عالمی معیشت میں سست روی کا رجحان رہا، جس کا اثر پاکستانی معیشت پر بھی دیکھنے میں آیا اور ملکی ترقی کی شرح مزید تنزلی کا شکار ہو کر منفی 0.4 فیصد تک جا پہنچی۔ اس سے قبل پاکستان کی معیشت میں منفی گروتھ 1952-1951 میں دیکھی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ڈالر کی قدر میں اضافہ، پٹرول و دیگر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافے نے ملکی جی ڈی پی کو منفی تک لیجانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت کی جانب سے بروقت کیے جانے والے اقدامات جن میں لاک ڈاؤن میں نرمی، 1200 ارب روپے کا تاریخی کورونا ریلیف پیکج اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی ریٹ میں 47 فیصد کمی کر کے 13.25 فیصد سے 7 فیصد پر مستحکم کرنا شامل ہیں۔ حکومت کے ان اقدامات نے معیشت پر مثبت اثرات چھوڑے جس کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ اضافے کے ساتھ 48000 پوائنٹس کی نفسیاتی سطح کو عبور کر گئی۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ اضافے کے ساتھ24.6ارب ڈالر کو پہنچ گئے۔اس کے علاوہ حکومت نے موجودہ مالی سال میں ترقیاتی کاموں کو اہمیت دیتے ہوئے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں 561 ارب روپے خرچ کیے اور کنسٹرکشن اسکیم کو بھی جاری رکھا جس سے ملک میں انڈسٹریل سیکٹر کو مزید بڑھنے کا موقع ملا۔ پاکستان کے اداراہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی کل جی ڈی پی 41 ہزار 500 ارب روپے سے بڑھ کر 47 ہزار 709 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس سب کے ثمرات پاکستان کی معاشی ترقی پر آئے جس سے پاکستان کی ترقی کی شرح تقریباً 800 فیصد اضافے کے ساتھ منفی 0.4 سے بڑھ کر 3.94 فیصد تک آن پہنچی ہے۔ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اصلاحات کے نتیجے میں ملک کی معاشی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا اور ملکی جی ڈی پی جو 2018 میں 34.61 ٹریلین روپے تھی آج 13 ٹریلین روپے کے اضافے کے ساتھ 47.7 ٹریلین روپے تک جا پہنچی ہے۔ تاہم ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے ایک برس بعد ہی پاکستان کی جی ڈی پی 314 ارب ڈالر سے 11 فیصد کمی کے بعد مالی سال 2019 میں 278 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔گزشتہ مالی سال کے دوران اس میں مزید کمی واقع ہوئی اور جی ڈی پی 263 ارب ڈالر پر آ کھڑی ہوئی۔ البتہ ، گزشتہ مالی سال میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث ملکی معیشت میں بہتری آئی اور جی ڈی پی 12.5 فیصد ترقی کے ساتھ 296 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ یوں، موجودہ مالی سال کے دوران ملکی جی ڈی پی میں 33 ارب ڈالر کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
 
گردشی قرضہ

توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں سے مراد یہ ہے کہ حکومت یا سرکاری ادارے جب بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کو حاصل ہونے والی بجلی کے عوض معاوضہ نہیں ادا کر پاتے تو یہ قرض جمع ہوتا رہتا ہے ، یوں سادہ الفاظ میں بجلی کی پیداواری لاگت اور اسے بیچ کر ہونے والی وصولیوں کے فرق کو گردشی قرضہ کہتے ہیں۔پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی لاگت پوری نہ ہونے کی اہم وجوہات میں ملک میں جاری بجلی چوری، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی ناقص کارکردگی شامل ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل جون 2018 میں ملک میں جاری گردشی قرضہ 1148 ارب روپے تھا ، تاہم حکومت کی جانب سے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں اور اس سے منسلک اداروں کو بروقت ادائیگی نہ کیے جانے پر اس میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اور نومبر 2020 تک پاکستان میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کا حجم 2306 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ مالی سال2021 کے پہلے آٹھ ماہ جولائی تا فروری کے دوران بجلی سیکٹر کے گردشی قرضوں میں 212 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کے بعد بجلی سیکٹر کا گردشی قرضہ جون 2021 تک 2370 ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحریک انصاف نے اپنے دورِ اقتدار میں بجلی سیکٹر سے منسلک گردشی قرضے میں دو گنا سے بھی زائد کا اضافہ کیا ہے۔ مئی 2021 کو مہمند ڈیم کے دورہ کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ 2023 تک ملک میں جاری توانائی سیکٹر کا گردشی قرضہ 1455 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے یہ نوید بھی سنائی کہ 2028 تک ملک میں 10 بڑے پانی کے پراجیکٹ مکمل ہو جائیں گے۔

معیشت پر قرضوں کا بوجھ

ملکی معیشت پرقرضوں کے بوجھ میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے البتہ تحریک انصاف کے بر سر اقتدار میں آنے کے بعد ملکی قرضوں میں ریکارڈ 52 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران موجودہ حکومت میں قرضے اکھٹا کرنے کی رفتار میں تیزی رہی اور ملک کے مجموعی قرضہ جات میں مارچ 2021 تک تقریباً 15 ہزار 600 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا کل قرضہ 45 ہزار 470 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اگر ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں لیے گئے قرضوں کا موازنہ کیا جائے تو جون 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے قبل پاکستان کا کل قرضہ 6 ہزار 691 ارب روپے تھا، جون 2013 میں( ن) لیگ کی حکومت آنے سے پہلے پاکستان کا مجموعی قرضہ 16 ہزار 338 ارب روپے تھا، جبکہ جون 2018 میں ملک کا مجموعی قرضہ 29 ہزار 879 ارب روپے تک جا پہنچا۔ملک کے کل قرضوں و واجبات میں اندرونی قرضوں کا تناسب 61 فیصد ہے جبکہ بیرونی قرضہ 39 فیصد ہے۔ قرض واجبات کے حوالے سے حکومتی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران حکومت کے اندرونی قرضے میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ بیرونی قرضے میں 53 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم سے لیے جانے والے قرضے میں گزشتہ تین سالوں میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے کل قرضہ جات میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا حصہ 1 ہزار 165 ارب روپے یعنی صرف 2.5 فیصد ہے۔ اسی طرح پاکستان کا کل قرضہ ملکی جی ڈی پی کا 95.3 فیصد ہے جو کہ جون 2018 میں 86.3 فیصد پر تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2020 تک ملک کا مجموعی بیرونی قرض 116 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، جو کہ گزشتہ سال مارچ 2020 کو 110 ارب ڈالر تھا، یعنی گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے ذمے مجموعی طور پر واجب الادا قرض میں چھ ارب ڈالرزکا اضافہ ہوا ہے۔

بیرونی اور اندرونی قرضوں کی ادائیگی

تحریک انصاف کے برسراقدار میں آنے کے بعد حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ زور بیرونی و اندرونی قرضوں کی ادائیگیوں پر کیا گیا، جس کے باعث بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس کام کیلئے مختص کیا گیا۔ اگر ماضی کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے پہلے گزشتہ حکومت نے مالی سال 2018 میں 1 ہزار 997 ارب روپے قرض اور واجبات کی ادائیگیوں کی صورت میں ادا کیے، تاہم تحریک انصاف نے مالی سال 2019 میں اس میں تقریباً 57 فیصد اضافہ کر کے 3 ہزار 133 ارب روپے ادا کیے۔ اسی طرح گزشتہ مالی سال کے دوران قرضوں کی ادائیگیاں بھی ہوئیں اور قرض وسود کی ادائیگی 3 ہزار 313 سے بڑھ کر 4 ہزار 450 ارب روپے تک جا پہنچی۔ اگر گزشتہ مالی سال کی بات کی جائے تو حکومت نے مالی سال2021 کے ابتدائی 9 ماہ جولائی سے مارچ کے عرصے میں کل 3 ہزار 548 ارب روپے قرض و سود کی ادائیگی کی صورت میں واپس کیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت نے اپنے ڈھائی سالہ دورِ اقتدار میں 20 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو حکومت نے مالی سال 2019 میں 9.4 ارب ڈالرز اور مالی سال 2020 کے دوران 12.8 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضے ادا کیے، جبکہ مالی سال 2021 کے ابتدائی 9 ماہ جولائی سے اپریل کے دوران 9.6 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی گئی۔ اگر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا موازنہ ماضی کی حکومتوں سے کیا جائے تو مسلم لیگ (ن) نے اپنے پہلے ڈھائی سالہ دورِ اقتدار میں تقریباً 10 ارب ڈالرز کی بیرونی قرض کی مد میں ادائیگی کی، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنی حکومت کے پہلے ڈھائی سال کے دوران بیرونی قرض کی مد میں 6 ارب ڈالرز سے زائد کی ادائیگی کی گئی۔
 

 

Advertisement