شرح نمو کی بہتری

Published On 26 August,2021 09:15 pm

لاہور: (مہروز علی خان) مالی سال 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے سے قبل ملکی جی ڈی پی 34.61 ٹریلین روپے پر مستحکم تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد مالی سال 2019ء ملکی جی ڈی میں مزید بہتری کے ساتھ 38.08 ٹریلین روپے کی سطح کو پہنچ گئی۔

2019ء کے اختتام میں آنے والی عالمی وباء کورونا نے فروری 2020 میں پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے لیا جس کے باعث عالمی دنیا نے اپنے اپنے ممالک میں لاک ڈاوؤن نافذ کیا۔ اس سب کے سبب عالمی معیشت جمود کا شکار ہو گئی جس کا براہ راست اثر پاکستان کی معیشت پر بھی پڑا اور ملکی جی ڈی پی مالی سال 2020 میں 41.55 ٹریلین روپے پر رہی۔ البتہ، گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت کی جانب سے کیے جانے والے بروقت اقدامات اور کورونا لاک ڈاوؤن میں نرمی کے باعث پاکستان کی معیشت میں بہتری آئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالی سال 2021 میں ملکی جی ڈی پی 47.7 تک جا پہنچی۔ یوں، پاکستان کی جی ڈی پی جو 2018 میں 34.61 ٹریلین روپے تھی، آج تین سالوں کے دوران 13 ٹریلین روپے کے اضافے کے ساتھ 47.7 ٹریلین روپے تک جا پہنچی ہے۔ اس کے برعکس، اگر تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ملکی جی ڈی پی کو ڈالر کے حساب سے جانچا جائے تو مالی سال 2018 میں 109 روپے کا دستیاب ہونے والا ڈالر آج 55 روپے کے اضافے کے ساتھ 164 روپے فی ڈالر تک جا پہنچا ہے، جس کے باعث پاکستان کی جی ڈی پی جو پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل مالی سال 2018 میں 314 ارب ڈالر تھی، ایک برس بعد 11 فیصد کمی کے ساتھ مالی سال 2019 میں 278 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ مالی سال 2020 میں ملکی جی ڈی پی مزید 15 ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ 263 ارب ڈالر پر آ کھڑی ہوئی۔ تاہم، حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاشی اصلاحات اور کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے سبب ملکی معیشت میں بہتری آئی اور مالی سال 2021 میں ملکی جی ڈی پی 33 ارب ڈالر اضافے کے ساتھ 296 ارب ڈالر پر پہنچ گئی۔

ملکی زرمبادلہ کے ذخائر

مرکزی بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل مالی سال 2018 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 16.38 ارب ڈالر تھے، تاہم تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے ایک سال کے اندر ہی اس میں کمی دیکھنے میں آئی جس کے بعد مالی سال 2019 میں زرمبادلہ کے ذخائر 1.98 ارب ڈالر کمی کے ساتھ 14.4 ارب ڈالر کی سطح کو آ پہنچے۔ تاہم، بعد میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور مالی سال 2020 میں زرمبادلہ 4.4 ارب ڈالر اضافے کے ساتھ 18.8 ارب ڈالر کی سطح کو پہنچ گئے۔ گزشتہ سال زرمبادلہ ذخائر میں مزید اضافہ کرنے کیلئے ستمبر 2020 میں وفاقی حکومت نے اسٹیٹ بینک کے اشتراک کے ساتھ روشن ڈیجیٹل اکاوؤنٹ اسکیم متعارف کرائی جس کے تحت نان ریزیڈینٹ پاکستانی (این آر پی) پاکستان کے بینکاری اور ادائیگیوں کے نظام سے مکمل طور پر منسلک ہو گئے۔ اس اسکیم کے تحت نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ متعارف کرایا گیا، جس کے تحت ڈالر میں سرمایہ کاری کرنے پر 5 سے 7 فیصد جبکہ روپے پر 9 سے 11 فیصد منافع دیے جانے کجا عندیہ دیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان روشن ڈیجیٹل اکؤنٹ متعارف کرنے کے پہلے ہی مہینے میں 60 لاکھ ڈالرز اکھٹے کیے، جبکہ وفاقی حکومت اور مرکزی بینک کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں ڈپازٹ کرائے گئے ڈالرز کی مالیت 1.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی بھی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ متعارف کیے جانے کے بعد سے ستمبر 2020 تا مارچ 2021 تک روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں مجموعی ڈپازٹ کی مالیت 80 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز تھی۔ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ان سب اقدامات کے سبب مالی 2021 میں ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 5.5 ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ 24.3 ارب ڈالر کی سطح کو پہنچ گئے ہیں۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال اگست کے دوران ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 24.6 ارب ڈالر ہیں جن میں سے مرکزی بینک کے ذخائر 17.6 ارب ڈالر جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 7 ارب ڈالر کو پہنچ گئے۔

ترسیلاتِ زر

گزشتہ حکومت کے آخری مالی سال 2018 کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر 19.9 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں۔تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے بعد ملکی ترسیلاتِ زر میں اضافہ دیکھنے میں آیا، اور مالی سال 2019 کے دوران ترسیلاتِ زر 21.7 ارب ڈالر تک جا پہنچی اور مالی سال 2020 میں مزید بہتری کے بعد ملکی ترسیلات 23.1 ارب ڈالر ہو گئیں۔ گزشتہ مالی سال 2021 کے دوران پاکستان آنے والی ترسیلاتِ زر ریکارڈ اضافے کے ساتھ 29.3 ارب ڈالر کی سطح سے تجاوز کر گئی۔ پاکستان آنے والی ترسیلاتِ زر کا اگر موازنہ کیا جائے تو مالی سال 2021 کے دوران سعودی عرب سے 7.6 ارب ڈالر، برطانیہ سے 4 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 6.1 ارب ڈالر، امریکہ سے 2.7 ارب ڈالر،دیگر جی سی سی عرب ممالک سے 3.3 ارب ڈالر جبکہ یورپ سے 2.7 ارب ڈالر پاکستان آئے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس

پاکستان تحریک انصاف کے برسراقتدار میں آنے سے قبل پاکستان اسٹاک ایکسچینج 42ہزار712 کی سطح پر تھا۔ تاہم، ٹھیک ایک سال بعد معاشی سست روی کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج گراوٹ کا شکار ہوئی اور اگست 2019 میں28ہزار 765 پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گئی۔ البتہ، اس کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھنے میں آئی جس کے سبب جنوری 2020 کے ہفتے میں مارکیٹ میں تیزی کے باعث کے ایس ای 100 انڈکس 42 ہزار323 پوائنٹس کی سطح کو عبور کر گیا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں عالمی وباءکورونا نے اس وقت اثر ظاہر کیا، جب 26 فروری 2020 کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا ، جس کے سبب صرف ایک ماہ کے دوران اسٹاک مارکیٹ میں صرف ایک ماہ کے دوران 28 فیصد گراوٹ ریکارڈ کی گئی اور انڈکس 39ہزار پوائنٹس سے کم ہو کر 28 ہزار پوائنٹس پر آ کھڑا ہوا۔ تاہم حکومت کی جانب سے نافذ کردہ کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئی جس کے پیشِ نظر پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے بھی تیزی پکڑی اور "مارکیٹ کرنٹس ویلتھ نیٹ" کے مطابق 2020 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو ایشیا میں بہترین اور دنیا میں چوتھے نمبر پر کارکردگی دکھانے والی مارکیٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ 28 مئی 2021 کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈکس 4 سال کی بلند ترین سطح 47 ہزار 126 پوائنٹس پر بند ہوا۔ اس سے قبل مارکیٹ 3 اگست 2017 کو 47 ہزار کی سطح پر بند ہوئی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت کے تیسرے سال کے اختتام کے وقت اگست 2021 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج اس وقت 47 ہزار 123 پوائنٹس پر ہے۔

اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ/ شرح سود

 

اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ اگست 2018 میں 7.5 فیصد پر تھا،تاہم حکومت نے اقتدار میں آنے کے صرف ایک ماہ بعد اکتوبر 2018 میں پالیسی روٹ کو 100 بیس پوائنٹس بڑھا کر 8.5 فیصد کر دیا، جسے اپریل 2019 تک 10.75 تک بڑھا دیا۔ مئی 2019 میں حکومت کی جانب سے رضا باقر کو اسٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کیا گیا، جنہوں نے اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ میں 150 بیس پوائنٹس کا مزید اضافہ کر کے شرح سود کو 12.25 فیصد کر دیا۔ جولائی 2019 میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر پالیسی ریٹ میں نظر ثانی کی اور پالیسی ریٹ کو 13.25 مقرر کر دیا، جس کے باعث ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر سامنے آئی۔ مرکزی بینک کی جانب سے کیے جانے والے ان اقدامات کی صورت میں ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں جمود آیا جس کے باعث بیروز گاری میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سال 2020 میں دنیا بھر کو عالمی وباء کورونا نے اپنی جکڑ میں لیا جس کے سبب عالمی معیشت میں سست روی دیکھنے میں آئی۔ اسٹیٹ بینک نے ملک میں جاری معاشی سست روی کو ختم کرنے اور معیشت کی بحالی کیلئے مارچ 2020 سے جون 2020 کے دوران شرح سود میں 625 بیس پائنٹس کی کمی کی اور شرح سود کو 13.25 فیصد سے کم کرکے 7 فیصد کر دیا۔ مالی سال 2021 کے دوران بھی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 7 فیصد پر ہی رکھا۔گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران کورونا ماحول میں 2 ہزار ارب روپے کے مالیاتی پیکج دیئے گئے ہیں، اس کے ساتھ ٹیرف کے تحت 450 ارب روپے سستے قرضوں کی منظور ی بھی دی گئی ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے ملکی معیشت کو مستحکم رکھنے کیلئے اگست 2021 میں بھی شرح سود کو 7 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔

نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی

پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشوروں میں سے ایک ملک میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنا تھا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف مرکز میں آنے کے مزید چار لاکھ افراد کو ہنر مند تربیت دینے کی بھی نوید سنائی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس سلسلے میں اکتوبر 2019 کو "کامیاب جوان پروگرام " کا افتتاح کیا جس کے تحت نوجوانوں کو 10 ہزار روپے سے 50 لاکھ روپے تک کے قرض آسان قسطوں پر دینے کا اعلان کیا گیا۔ نوجوانوں میں اس پروگرام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کامیاب جوان پروگرام میں قرضوں کی حد کو 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر ڈھائی کروڑ روپے کر دی گئی۔ ناصرف یہ بلکہ حکومت نے قرضوں پر سود کی شرح کو 6 اور 8 فیصد سے کم کر کے 3 اور 4 فیصد بھی کر دیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کامیاب نوجوان پروگرام عثمان ڈار کے مطابق مئی 2021 تک 10 ہزار افراد کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت ساڑھے 8 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی عثمان ڈار کے مطابق وفاقی حکومت نے سندھ کے نوجوانوں کیلئے کامیاب جوان پروگرام کے تحت 10 ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق مئی 2021 تک حکومت کامیاب جوان پروگرام کے تحت 1.3 ارب روپے قرضوں کیلئے اور 1.4 ارب روپے کی رقم اسکل اسکالرشپ پروگرام کے تحت سندھ کے نواجوانوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کابینہ میں شامل ہونے کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار کامیاب جوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کیلئے قرض کی حد کو 5 کروڑ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مئی 2021 میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نوجوانوں کیلئے دو نئے پروگرامز لانے کا اعلان کیا گیا جس میں نوجوانوں کیلئے روزگار کیلئے 50 ہزار اسکالر شپس ہائر ٹیکنالوجیز کیلئے دی جائیں گی جبکہ ایک لاکھ 70 ہزار اسکل ایجوکیشن کیلئے اسکالر شپس دی جائیں گی تاکہ نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق ان تمام منصوبوں کیلئے حکومت کی جانب سے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

غیر ملکی سرمایہ کاری

پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل مالی سال 2018 میں ملک میں آنے والی مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر تھی، تاہم وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ایک سال کے دوران اس میں 51 فیصد کمی واقع ہوئی جس کے سبب غیر ملکی سرمایہ کاری مالی سال 2019 کے دوران 1.3 ارب ڈالر تھی۔ مالی سال 2020 میں حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے معاشی اصلاحات کیے جس کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کاری 90 فیصد ریکارڈ اضافے کے ساتھ 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ گزشتہ مالی سال 2021 میں اس میں ایک مرتبہ پھر 29 فیصد کمی دیکھنے واقع ہوئی جس کے سبب غیر ملکی سرمایہ کاری 1.8 ارب ڈالر پر رہی۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر

پاکستان تحریک انصاف کے برسراقتدار میں آنے کے وقت اگست 2018 میں مارکیٹ میں فی ڈالر 123 روپے پر تھا، جو کہ صرف ایک سال کر دوران 36 روپے اضافے کے ساتھ 159 روپے فی ڈالر پر پہنچ گیا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے کے سبب ملکی درآمدات مہنگی ہوئیں اور ساتھ ہی ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کی اصل قصور وار ماضی کی حکومت کو قرار دیتے ہوئے یہی موؤقف اپنائے رکھا کہ ماضی میں ڈالر کی قیمت میں کمی مصنوعی طریقے سے کی جا رہی تھی جبکہ موجودہ حکومت کے دوران ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہو رہا ہے۔ سال 2019 میں کورونا وباء نے عالمی معیشت کو سست روی کی جانب مائل کیا جس کا براہ راست اثر پاکستان کی معیشت پر بھی پڑا اور اگست 2019 میں فی ڈالر 159 روپے پر ریکارڈ ہوا۔سال 2020 میں بھی کورونا وائرس کے باعث نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کے سبب ملکی معیشت دباؤ کا شکار رہی جس کے باعث ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں مضبوط رہی اور مرکزی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق اگست 2020 میں فی ڈالر 167 روپے پر ریکارڈ ہوا۔ تاہم گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت کی جانب سے نافذ لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث ملکی معاشی صورتحال میں بہتری آئی اور ڈالر 159 روپے کی قیمت پر مستحکم رہا۔ اس کے علاوہ گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی ترسیلاتِ زر بھی ماہانہ دو ارب ڈالر سے زائد رہی جبکہ حکومت نے کزشتہ سال روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اسکیم بھی متعارف کرائی جس کے باعث ملک میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا اور روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا۔ البتہ، مالی بجٹ 2022 کے آنے کے بعد سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی جس کے باعث اگست 2021 میں فی ڈالر 164 روپے پر جا پہنچا ہے۔ مزید براں تحریک انصاف کے تین سالہ دورِ حکومت میں روپے کی قدر کا جائزہ لیا جائے تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 33 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

 

Advertisement