مارچ 2022ء میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوگا: شاہ محمود

Published On 11 November,2021 05:28 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مارچ 2022ء میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوگا۔

اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے خصوصی ایلچی برائے جموں و کشمیر یوسف الدوبے کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مختلف تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے شہری بھارت سے آج جتنا متنفر ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ مارچ 2022ء میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوگا۔ اوآئی سی کے خصوصی ایلچی کو صورت حال سے آگاہ کیا ہے، کووڈ کے دوران مقبوضہ کشمیر میں لوگ مشکل تھے، اس سے بھی آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر جس مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے وہ بھی ابتر ہے اور وہاں کی سیاحت بھی تباہ ہوچکی ہے۔ 5 اگست 2019ء کو کئے گئے اقدامات کو بھارت بڑی کامیابی سمجھتا ہے لیکن جو انہوں نے کیا اور موقع پر جو ہوا وہ بالکل برعکس ہے۔ موقع پر آج کشمیری جس مشکل کا شکار ہے وہ پہلے کبھی ایسا نہیں تھا، کشمیری دہلی سرکار سے جتنا متنفر آج ہے، بھارتی وزیراعظم کے الفاظ ہیں کہ سری نگر نہ صرف دہلی دور ہے بلکہ دل بھی دور ہیں اور ان اقدامات نے ان دوریوں میں اضافہ کیا ہے۔

او آئی سی کے نمائندے یوسف الدوبے نے اس موقع پر میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے او آئی سی کانمائندہ یہاں آیا ہوا ہے اس سے آگاہ کرنے کے لیے میڈا موجود ہے۔ ہمارے اس دورے کا مقصد ہے کہ رابطہ گروپ کے اجلاس کی وجہ ہوا تاکہ ہمارا دورہ کارآمد ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ نیویارک میں 2020 میں جو اجلاس ہوا تھا اس میں یہ ساری باتیں اس وقت نمایاں کی گئی تھیں، اس دورے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ ہمارے سیکریٹری جنرل اور وزرائے خارجہ نے مجھے خصوصی ایلچی اور ہمارے انسانی حقوق کے طارق کو یہ دورہ کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ تمام پہلو کو دیکھا جائے۔

خیال رہے کہ یوسف الدوبے نے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور سفیر طارق علی بخیت کے ہمراہ ایل او سی سے متصل چری کوٹ سیکٹر کا دورہ کیا تھا جہاں ان کےساتھ سعودی عرب، مراکش، سوڈان اور مالدیپ کے 5 سینئر سفارت کار بھی تھے۔

وفد کو ایل او سی کے قریبی علاقوں میں سیکیورٹی کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی اور ڈی جی ایم او کے درمیان انڈراسٹینڈنگ سے پہلے اور بعد کی صورت حال سے بھی آگاہ کیا گیا۔
 

Advertisement