اپوزیشن کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے باوجود سندھ بلدیاتی ترمیمی بل منظور

Published On 11 December,2021 04:28 pm

کراچی: (دنیا نیوز) سندھ اسمبلی نے بلدیاتی ترمیمی بل منظورکرلیا۔ بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے احتجاج کیا۔

سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے رولنگ میں بلدیاتی بل متفقہ طورپرمنظورہونے کا اعلان کیا۔ بل پرگورنر سندھ نے اعتراض کیا تھا۔

بلدیاتی ترمیمی بل کی مراحلہ وار منظوری کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے سپیکرکے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا۔ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اوربل نامظورکے نعرے لگائے۔

ترمیمی بل کی شقوں کے مطابق کراچی سمیت سندھ کے 6 ڈویژنل ہیڈکوارٹرزمیں ٹاؤن بنائے جائیں گے۔ ٹاؤنز اورمیونسپل کمیٹیز کے چئیرمینز کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوگا۔ بلدیاتی کونسلز کے چیئرمینز کا الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے کرانےکی شق واپس لےلی گئی۔

بلدیاتی ترمیمی بل میں بلدیاتی کونسلز کو9 صوبائی محکموں کے امورمیں اختیاردے دیا گیا۔سندھ پولیس کےامور میں منتخب بلدیاتی کونسلز کو شامل کیاجائےگا۔

بل کے مطابق ایس ایس پی متعلقہ بلدیاتی چئیرمین سے رابطے کا پابند ہوگا۔ پولیس کے امور اورامن وامان سے متعلق پولیس افسران رپورٹ بلدیاتی کونسل کودیں گے۔ پراسیکیوشن، پولیس ایڈمنسٹریشن اور کرمنل کیسز میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیار نہیں ہوگا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے ایک بار پھر لسانیت شروع کر دی ہے، یہ قبضے قبضے کے نعرے لگا رہے ہیں، کیا ہم منتخب ہو کر نہیں آئے اسمبلی میں؟ پیپلز پارٹی سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی میں آئی ہے، جبکہ لسانیت کرنے والا لندن بیٹھا ہے، یہ لوگ ان کی سوچ ذہنوں سے نکال نہیں سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہا گیا ناصر شاہ دوسری جگہ کا ہے اور وہ یہاں کے فیصلے کر رہا ہے، ناصر شاہ سندھ کا ہے اور صوبے کے ہی فیصلے کرے گا، ہنگامہ ڈالا گیا کہ اینی پرسن کیسے ہو سکتا ہے، کیا نعمت اللہ خان کسی کونسل کے ممبر تھے؟ ہم اکثریت میں ہیں صوبے کے فیصلے ہم کریں گے، ہمیں پاکستان کا حصہ سمجھو۔

دوسری طرف وزیرِاطلاعات سندھ سعید غنی کا کہنا ہے کہ کل وزیرِ اعظم عمران خان نے گرین لائن کا افتتاح کیا، گرین لائن بس سمیت تمام منصوبے سابق وفاقی حکومت کے تھے، پی ٹی آئی حکومت نے آ کر دوسروں کے منصوبوں پر تختیاں لگا دی ہیں، مجھے ایک منصوبہ بتا دیں جو انہوں نے شروع کر کے مکمل کیا ہو۔

سندھ اسمبلی کراچی میں وزیرِ ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ سندھ کابینہ نے وفاق کو جزیروں پر تعمیرات کی اجازت دی، اجازت ملنے کے بعد انہوں نے ایئر لینڈ کا آرڈیننس جاری کر دیا، سندھ کابینہ نے اپنے اختیارات کے تحت اپنا اجازت نامہ منسوخ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے جزائر پر ترقیاتی کاموں کی اجازت دی، انہوں نے آرڈیننس جاری کر کے قبضہ شروع کیا، ہم نے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دی تھی، گورنر سندھ، وزیرِ اعلیٰ اور وفاقی وزراء کی باتیں ریکارڈ پر ہیں، کے فور منصوبے کے لیے سندھ حکومت پر کرپشن کا الزام لگایا گیا، کے سی آر پروجیکٹ کے لیے سی ایم سندھ چین گئے تھے۔

وزیرِاطلاعات سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت کو کے سی آر کے لیے وفاق سے سیکیورٹی خطوط چاہیے تھے، سندھ حکومت کو یہ سیکیورٹی خطوط نہ نون لیگ نے دیئے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے دور میں ملے، ان کی کوشش تھی کہ کے سی آر منصوبہ ایم ایل ون میں شامل کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں جو خط ملا اس میں ہے کہ ایک ہزار روپے کا راشن مستحقین کو دیں گے، شرائط میں ہے کہ راشن لینے کے لیے مستحق کے پاس اسمارٹ فون ہو، کہا گیا کہ مستحقین کے راشن کے لیے 35 فیصد وفاق اور 65 فیصد پیسہ صوبہ دے گا، جب پیسے صوبے نے دینے ہیں تو پروگرام کا اعلان آپ کیوں کریں گے، ان کا راشن پروگرام شفاف نہیں تھا

وزیرِ اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں علاج کے لیے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں، ہم 57 ارب روپے مختلف اسپتالوں کو گرانٹ دے رہے ہیں، خاندان کے ایک شخص کو گردوں کی بیماری ہو 10 لاکھ روپے میں نجی اسپتال میں علاج نہیں ہو سکتا، آپ کی وجہ سے نجی اسپتالوں کو شاید فائدہ ہو رہا ہو مگر سرکاری ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسد عمر کو معقول آدمی سمجھتا تھا، مگر وہ کچھ عرصے سے تبدیل لگ رہے ہیں، اسلام آباد میں انہوں نے دھمکیاں دی ہیں، اسمبلی میں کہا کہ مردم شماری سندھ حکومت نے کروائی، ان کو نہیں پتہ کہ مردم شماری الیکشن کمیشن نے کروائی۔

سعید غنی کا کہنا ہے کہ دعویٰ کیا گیا کہ گجر نالہ اور محمود آباد نالہ ہم نے صاف کیا، ان کو نہیں پتہ کہ یہ ہماری اے ڈی پی میں ہے، محمود آباد نالے کا کام ہم نے شروع کیا تھا، کے سی آر پرانا منصوبہ تھا، ان کی ترجیح ایم ایل ون تھا، ہم نے کے سی آر کو سی پیک میں شامل کروایا ہے، کے فور منصوبہ ہمارا تھا، پہلے صرف روٹ کے پیسے رکھے تھے، کے فور وفاق اور صوبہ مل کر بنا رہے تھے، انہوں نے کرپشن کے الزامات لگائے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے صرف لائن بچھانی ہے، پاور اسٹیشن پمپنگ اسٹیشنز ہمیں بنانے ہیں، منگھو پیر روڈ سمیت کئی منصوبے سابق وفاقی حکومت کے تھے، مجھے الیکشن کمیشن نے 50 ہزار روپے جرمانہ کیا، مجھے کوئی نوٹس نہیں ملا تھا، نثار کھوڑو نہ رکنِ اسمبلی ہیں نہ ان کے پاس کوئی عہدہ ہے، ان کو بھی نوٹس دیا گیا۔

وزیرِ اطلاعات سندھ نے کہا کہ آپ ہم سے نہ پوچھو 50 سال میں ہم نے کیا کیا، ہم نے کچھ کیا ہے تب ہی تو لوگ ہمیں ووٹ دے رہے ہیں، پیپلز پارٹی الیکشن میں جیت رہی ہے، حشر آپ کا برا ہو رہا ہے، آپ جواب دیں کہ چینی کمیشن میں نامزد لوگ جیلوں میں کیوں نہیں گئے، لوگوں کی جیبوں سے آپ اربوں روپے نکال لیتے ہیں۔

سعید غنی نے یہ بھی کہا کہ مجھے الیکشن کمیشن کا کوئی نوٹس نہیں ملا، نہ کوئی خط ملا، الیکشن کمشنر نوٹس لیں کہ یہ کون صاحب ہیں جو ایسی حرکتیں کر رہے ہیں، وزیرِ اعظم عمران خان کو کے پی میں جانے سے روکا گیا مگر وہ وہاں گئے، وفاقی حکومت کے تمام وزراء کے پی کے میں کمپین کر رہے ہیں۔