اسلام آباد: (دنیا نیوز) پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن اور سابق صدر آصف علی زرداری کا پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، تینوں رہنماؤں میں عدم اعتماد سے متعلق ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
اُدھر سابق صدر نے اسلام آباد میں امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنےکےطریقہ کار اور اس کے لیے مناسب وقت کو حتمی شکل دینے پر غورکیا گیا۔
اس دوران سابق صدر آصف علی زرداری نے تجویز دی کی کہ پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ جب اسلام آباد پہنچنے پر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔
فضل الرحمان اور آصف زرداری کی ملاقات کا اعلامیہ جاری
دوسری طرف مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کے درمیان ملاقات کا اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔
اعلامیےکے مطابق ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال اور عدم اعتماد کی تحریک پر مشاورت ہوئی، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ملاقات کے دوران بذریعہ فون تمام مشاورت میں شریک رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مسلسل مشاورت جاری ہے، عدم اعتماد سے متعلق قانونی ماہرین کی رائے بھی آچکی ہے،عدم اعتماد کا ڈرافٹ تیار ہوچکا ہے جس پر ملاقات میں مشاورت ہوئی، عدم اعتماد کی حتمی تاریخ کا تعین شہباز شریف کی علالت کے باعث آئندہ ایک دو روز میں ہوگا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں ملک معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس کو بحال کریں گے۔
اکثریت ہمارے ساتھ ہے: مولانا فضل الرحمان
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہےکہ اکثریت ان کے ساتھ ہے، ایک دو روز میں عدم اعتماد پیش کرنےکا مرحلہ آئےگا۔
اسلام آباد میں آصف زرداری سے ملاقات کے بعد میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نےکہا کہ خزاں جائے گی، بہار آئے یا نہ آئے، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا رہی ہے۔ تحریک عدم اعتماد میں اتحادیوں کی شرکت کا بھی امکان ہے، آصف زرداری سے تحریک عدم اعتماد اور ملک کی صورت حال پر مشاورت کی، مشاورت کے دوران ٹیلی فون پر شہباز شریف سے بھی رابطہ رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ کل رات ہمارے آئینی و قانونی ماہرین کی میٹنگ ہوچکی ہے، شہباز شریف ایک دو روز سے علیل ہیں، شہباز شریف لاہور میں مشاورت کریں گے، ایک دو روز میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنےکا مرحلہ آئےگا، ہم حتمی اور آخری اقدام پر پہنچ چکے ہیں، اپنے ممبران کو بحفاظت پارلیمنٹ رازداری کے ساتھ پہنچائیں گے۔ اپنے ملک کے اداروں اور اسلامی برادری سے کہوں گا کوئی ملک اب عمران خان کو پاکستان کا نمائندہ نہ مانے۔
انہوں نےکہا کہ چودھری برادران کو شہباز شریف نےگھرکھانے پر بلایا تھا، وہ لوگ کیوں شہباز شریف کےگھر نہیں گئے، ہمارے پاس چھانگا مانگا اور مری نہیں ہے، قوی امکان ہے اتحادی ہمارے ساتھ ہوں گے۔
ن لیگ کا 38حکومتی اراکین اسمبلی کی حمایت ملنے کا دعویٰ
تحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر مسلم لیگ ن نے 38 حکومتی ارکان اسمبلی کی حمایت ملنے کا دعویٰ کر دیا۔
ذرائع کے مطابق 38 حکومتی ارکان اسمبلی کی حمایت ملنے کی فہرست سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کو ارسال کر دی گئی۔ ن لیگ نے 10 ارکان کو آئندہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما نے دعویٰ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت کے 16 ارکان قومی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں۔
سینئر لیگی رہنما نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن نے ہم خیال حکومتی ارکان کو 3 مراحل میں تقسیم کر دیا ، پہلے مرحلے میں وہ ارکان ہیں جو حکومتی پالیسیوں سے دلبرداشتہ ہیں۔ دوسرے مرحلے میں حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی سوچ رکھنے والے ارکان شامل ہیں۔ تیسرے فیز میں دیکھو اور انتظار کرو کی سوچ رکھنے والے ارکان ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار، 80 سے زائد اراکین کے دستخط
اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کرلیا۔ تحریک پر 80 سے زائد اپوزیشن اراکین کے دستخط ہیں۔
ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی ف، اے این پی، بی این پی مینگل اور دیگر کے دستخط ہیں۔ ملک اقتصادی زبوں حالی کا شکار ہے۔ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کا کوئی روڈ میپ نہیں۔ مجوزہ مسودے کے مطابق ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال ہے، خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
مجوزہ مسودے میں کہا گیا کہ قائد ایوان اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے۔ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی تیار کر رکھی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر کو الرٹ کر دیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد اور ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے۔
عمران خان کے پاس 5 دن کی ڈیڈ لائن، خود مستعفی ہوجائیں: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان کے پاس 5 دن کی ڈیڈ لائن ہے خود مستعفی ہوجائیں، اگرغیرت ہے تو وزیراعظم اسمبلی توڑکرہمارا مقابلہ کریں۔
پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے، بلاول بھٹو کی قیادت میں مارچ بہاولپور پہنچ چکا ہے۔ چنی گوٹھ میں انہوں نے جیالوں سے خطاب کیا۔
جیالوں سے خطاب کرتے ہوئے پی پی چیئر مین کا کہنا تھا کہ عوام عمران خان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، عمران خان کے پاس 5 دن کی ڈیڈ لائن ہے، اگرغیرت ہے تواسمبلی توڑ کر ہمارا مقابلہ کرو، پانچ دن بعد ہمارے پاس عدم اعتماد کے نمبرز پورے ہو چکے ہوں گے، ہم اسلام آباد پہنچ کرتمہارا بندوبست کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ شہید بھٹوکے نامکمل مشن کومکمل کرنا ہے۔ ہم عوامی حکومت بنا کرعوام کے مسائل کوحل کریں گے۔ اتحادیوں کوکٹھ پتلی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے، ہم اس کوہٹا کرشفاف الیکشن کروائیں گے۔ بہاولپورنے ثابت کردیا وزیراعظم سے اعتماد اٹھ گیا ہے، تمام جماعتوں کو عدم اعتماد میں ساتھ دینا چاہیے۔ اب ہم نے کٹھ پتلی سے حساب لینا ہے، اسلام آباد جاکرکٹھ پتلی سے ٹکرائیں گے۔
تحریک عدم اعتماد
واضح رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گزشتہ ماہ 11فروری کو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم اس ناجائز حکمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس سلسلے میں حکومت کی حلیف جماعتوں سے بھی رابطے کریں گے کہ وہ اپنا اتحاد ختم کریں۔
تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے اکابرین کے درمیان اہم ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ان کے ماڈل ٹاؤن میں واقع گھر پر ملاقات کی تھی جبکہ ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعےملاقات میں شرکت کی تھی۔
پی پی پی رہنماؤں کی آمد سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے بھی شہباز شریف سے علیحدہ ملاقات کی تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے اراکین کی تعداد سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی تھی۔
اپوزیشن کا اقدام کامیاب ہونے کی صورت میں پی پی پی چیئرمین بلاول پہلے ہی شریف خاندان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کر چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا تھا کہ وزارت عظمیٰ ان کی پارٹی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی برطرفی نئے انتخابات کی راہ ہموار کردے گی۔