اسلام آباد: (عامر سعید عباسی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف پی بی اے اور دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواستوں پر تمام فریقین کو پیر کے روز تک دلائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس واپس لے لے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ آرڈیننس جاری کرنے سے متعلق مختلف پہلو دیکھنے ہیں، آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار کس حد تک ہے؟ مصطفی ایمپکس کیس میں بھی سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ آرڈیننس ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس جاری کرکے پارلیمنٹ کے سامنے نہ رکھنا تو ایگزیکٹو کا اختیار نہیں، اس طرح تو ایگزیکٹو کی بدنیتی لگتی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے۔ اس دوران ہی رکھا جانا ہے جب تک رولز موجود ہیں تو ایگزیکٹو نے انہی کو اختیار کرنا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آرڈیننس ایگزیکٹو نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جہاں اکثریت ہو صرف وہاں پیش کردیں۔ حکومت نے بتانا ہے کہ ایگزیکٹیو اگر اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو اس کے بھی اثرات ہیں۔ آپ نے بتانا ہے کہ اس آرڈیننس کو کب اور کس ہاؤس کے سامنے پیش کیا گیا ؟ سینیٹ چیئرمین کی رولنگ ہے جب بھی آرڈینس جاری ہو گا، پارلیمنٹ اور سینیٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اگر ایگزیکٹو جان بوجھ کر آرڈیننس دونوں ہاؤسز کے سامنے نہیں رکھتا تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ایگزیکٹو کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کرے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کا سیکشن 20 میں گرفتاری کے اختیار کا کیا جواز ہے؟ کیوں نہ عدالت سیکشن 20 کو کالعدم قرار دے ؟ ایک کیس ہے جہاں صحافی نے ایک کتاب کا حوالہ دیا اور تاریخی حوالے پر سیکشن 20 کیسے لگے گا؟ اس سیکشن کو کالعدم قرار دینے کے لیے ایف آئی اے نے خود ہی ایک کیس بنا دیا۔ محسن بیگ کو بھی ایف آئی اے اسی طرح ہی گرفتار کرنا چاہ رہی تھی ؟ شکایت کنندہ (مراد سعید) اسلام آباد میں تھا محسن بیگ کے خلاف شکایت لاہور کیسے گئی ؟ کل کو کوئی پی ٹی ایس ایل پر کوئی تنقید کرے تو ترمیمی آرڈیننس کے تحت شکایت فائل کر سکتے ہیں؟ دنیا میں کوئی ایک مثال دے دیں کہ جہاں کسی کمپنی یا ادارے کی ساکھ کو تحفظ دیا جاتا ہو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر تک حتمی دلائل دینے کا حکم دے دیا، کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔