اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماضی میں مجھے عدالت بلاتی تھی تو احترام کے ساتھ جاتے تھے، اگرآپ نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر انصاف اورحق کی بنیاد پر کرنا ہو گا، یہ نہیں ہوسکتا میرے ساتھ اوردوسروں کے ساتھ اورسلوک کریں۔ اگر عدل انصاف نہیں ہو گا تو ملک آگے نہیں چل سکتا، عدلیہ کا دہرا معیارنہیں ہونا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں سیلاب سے متعلق خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ طوفانی بارشوں نے ہرجگہ تباہی پھیلائی، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ میں بے پناہ تباہی ہوئی، پاکستان بھرمیں طوفانی بارشوں سے نقصانات ہوئے، اتحادی حکومت پوری طرح آگاہ اورچوکس ہے، اس حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ میٹنگ کرچکا ہوں، متاثرہ علاقوں میں بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب حکومت دن رات کام کررہی ہے، این ڈی ایم اے بھی اس حوالے سے بھرپورکام کررہی ہے، یقین دلاتا ہوں امدادی پیکج میں مزید اضافہ کریں گے۔ معززممبران کی سفارشات کے پیش نظر کل مزید فیصلے کریں گے، صوبائی حکومتوں کی ہرممکن مدد کریں گے، کسانوں کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت بھرپورتعاون کرے گی، چترال سمیت جہاں بھی نقصانات ہوئے ازالہ کریں گے۔
آئین پاکستان کو مضبوط کرتا رہے گا
انہوں نے کہا کہ انسانی فطرت ہے بچے کو تکلیف ہو تو بچہ فوری ماں کے پاس جاتا ہے، یہ معززایوان ماں ہے، 1973ء کے آئین کو اسی ایوان نے تشکیل کی تھی، جس میں پورے پاکستان کی منتخب لیڈرشپ شامل تھی، اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی لیڈرشپ میں پاکستان بھر سے منتخب اراکین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اس آئین کی تشکیل کی، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ آئین پاکستان کی واحدت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ بدترین وقتوں میں بھی اسی آئین نے پوری دنیا کے سامنے مضبوط و متحد ملک کے طور پر پیش کیا، یہی آئین صدیوں تک پاکستان کی رہنمائی کرتا رہے گا، پاکستان کو مضبوط کرتا رہے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، 22 کروڑعوام نے منتخب نمائندوں کو اختیاردیا ہے، آئین میں مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ کے اختیارات متعین کردیئے ہیں۔ آئین کے اندر رہ کر سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، 75سالوں کے دوران آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، مارشل لا کئی دہائیوں تک مسلط رہے اورپاکستان دولخت بھی ہوا، جمہوریت کا پودا اتنا طاقت ورنہ ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا، جوممالک ہم سے بہت پیچھے تھے آج ترقی کی دوڑمیں آگے نکل چکے ہیں، اغیار نے کئی سال پہلے آئی ایم ایف کو خیرآباد کہہ دیا، بزرگ، مائیں، بیٹیاں پوچھتی ہیں ملک کے اندر کب مہنگائی،غربت، قرضوں کا خاتمہ ہوگا۔
شہباز شریف نے کہا کہ سب جانتے ہیں 2018ء کے الیکشن میں بدترین جھرلو الیکشن تھے، دھاندلی کی پیداوار حکومت کو مسلط کر دیا گیا، رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس بند ہوگیا تھا، دیہات میں پہلے اور شہروں میں نتائج بعد میں آئے تھے، سابق چیف جسٹس کے حکم پر گنتی کو رکوایا گیا تھا، گزشتہ پونے چار سالوں میں مسلط کردہ حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، 20 ہزار ارب سے زائد کے قرضے لیے گئے۔ پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا، اگر متحدہ اپوزیشن سیاست کو مقدم رکھتی تو پھرریاست کا خدا حافظ تھا، ہم سب نے ملکر ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا تھا، اگر سیاست کو بچاتے تو ریاست صحفہ ہستی سے مٹ جاتی، ہم جانتے تھے پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے، ہم جانتے تھے معیشت کوواپس زندگی دلانا آسان کام نہیں۔
مجھے متعدد بار وزیراعظم بننے کی آفر ہوئی
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نےکہا کہ کیا ہم چوردروازے سے آئے؟ یہ پہلا موقع تھا کسی نے وزیراعظم آفس پر چڑھائی نہیں کی، ڈنکے کی چوٹ پرکہتا ہوں کوئی کنفوژن نہیں، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، خالد مقبول صدیقی نے ملکر اور میرے قائد نے مجھے منتخب کیا، جانتا تھا یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا سفرہے، 1992ء میں سابق صدر نے مجھے وزیراعظم بننے کی آفر کی تھی، جنرل مشرف نے بھی مجھے وزیراعظم بننے کی آفرکی تھی، میرے سینے میں ایسے راز ہیں جو نہیں اگلوں گا، مجھے وزیراعظم بننے کے کئی مواقع ملے، نوازشریف کو جب اقامہ میں ناجائز سزا دی گئی تو نوازشریف نے مجھے چنا تھا، سب آتے ہیں اپنی اننگز کھیل کر چلے جاتے ہیں، یہاں کوئی سکندر نہیں، دنیا فانی ہے، ماضی میں غیرقانونی آفرزکوٹھکرایا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں کوئی تمغہ سجائے نہیں بیٹھا، رات کو بھی نیند نہیں آتی، 75 سال گزر گئے ابھی تک ہم نے اپنا راستہ متعین نہیں کیا، عدلیہ کا میرے دل میں بڑا احترام ہے، اگر حق اور سچ کی بات آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے، سابق چیف جسٹس دن رات سوموٹو لیتے تھے، مجھے عدالت بلاتی تھی تو احترام کے ساتھ جاتے تھے، اگرآپ نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر انصاف اورحق کی بنیاد پر کرنا ہو گا، یہ نہیں ہوسکتا میرے ساتھ اوردوسروں کے ساتھ اورسلوک کریں، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ حکومت میں سب سے زیادہ کرپشن بڑھی تھی۔
جو مجھ پر بیرونی ایجنٹ کا الزام لگائے وہ دن میرے مرجانے کا ہو
وزیراعظم نےکہا کہ دوست ممالک کو ناراض کر دیا گیا، یہ کہتے ہیں امپورٹڈ حکومت ہے، جب امریکی صدر سے ملاقات کر کے آیا تو کہتا تھا ایک اور ورلڈکپ جیت کرآیا ہوں، آج تمام ممالک سے تعلقات خراب کر دیئے، انہوں نے کہا روس نے سستا تیل دینے کی آفردی، روس نے کہا انہوں نے کوئی آفرنہیں دی۔ اس وقت تین ملین ٹن گندم شارٹ ہے، سیکرٹری خارجہ سے کہا روس اگر سستی گندم دے رہا ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے، جب ہم گندم خرید چکے تو پرسوں روس سے آفر آئی ہے، وہ دن میرے لیے مر جانے کا دن ہو جو مجھ پر بیرونی ایجنٹ کا الزام لگائے۔
چیف الیکشن کمشنر فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کر رہے
اُن کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کر رہے، کیس کو 8 سال ہو گئے ہیں، فارن فنڈنگ کا پیسہ اسرائیل، بھارت سے میں نے نہیں منگوایا، کیا کسی نے سوموٹونوٹس لیا؟ پونے چارسالوں میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، اوچھے ہتھکنڈوں کا مقصد اپوزیشن کو دیوارسے لگانا تھا، اگررازکھول دوں تو ایوان حیرت میں آجائے گا، پونے چارسال چور، ڈاکو کا راگ آلاپتا رہا، ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکا۔ آج دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں، ایک خطا کارانسان ہوں، کوشش کرونگا سچ بات کروں، قوم سے کہا تھا کوئی جھوٹ نہیں بولوں گا، اس لیے آج بات کر رہا ہوں، دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے، ان کے دورمیں چینی پراربوں کی سبسڈی دی گئی۔ گزشتہ دورمیں دونوں ہاتھوں سے قوم کولوٹا گیا، چینی کی قیمت 110روپے کلو تک جاپہنچی تھی، جس طرح روم جل رہا تھا تو نیورو بانسری بجا رہا تھا، ان کوکوئی پرواہ نہیں تھی، انہوں نے خود آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اورخود دھجیاں اڑائیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ بات نکلی ہے تو بہت دور تک جائے گی، بی آرٹی پشاورمیں اربوں کے غبن ہوئے، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، ہیلی کاپٹرکیس میں کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، مالم جبہ کیس پرکسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا اس کو نیب نے جھپا ڈال لیا۔ مونس الہیٰ کا کیس نیب نے بند کردیا، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں گرفتارکی گئیں، کسی نے نوٹس لیا، سابق وزیراعظم کی بہن کو خاموشی سے این آر او دیا گیا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، کفرکا نظام زندہ رہ سکتا ہے بے انصافی کا نہیں، 75سال گزرگئے آج بھی ہم اسی دائرے میں ہیں۔
تیل کی قیمتیں میرے اختیارمیں نہیں
وزیراعظم کا کہناتھا کہ ہٹلر کی مثال آج پاکستان میں بہت حد تک ہٹلر نے انتخاب میں 33 فیصد ووٹ لیے تھے، ہٹلرنے دن رات جھوٹ بولا لوگ سچ سمجھنا شروع ہوگئے تھے، نیتجہ کیا نکلا جنگ دوئم میں جرمنی کوصحفہ ہستی سے مٹادیا گیا، رب کوگواہ بنا کرکہتا ہوں سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ کہنا ہوگا ورنہ پاکستان شدید مشکلات میں گرجائے گا، آج بھی وقت ہے ہم حالات کو کنٹرول کرلیں، لاڈلے کو 15سال دن رات دودھ پلا کرلایا گیا، ادارے دن رات اس کے لیے کام کرتے تھے سوچتے ہیں تو عقل حیران ہوتی ہے، 75سال میں ایسی سپورٹ کسی کو نہیں ملی نہ کسی کوملے گی، آج مجھے کہا جاتا ہے 3 ماہ میں مہنگائی بڑھ گئی، بالکل بڑھی ہے، تیل کی قیمتیں میرے اختیارمیں نہیں، مجھے لوگ خادم اور ڈیلیوری کا ماسٹرکہتے ہیں، ایک طرف دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں اور معیشت کو ڈبو دیا گیا، ہم سب مل کر اس کشتی کو کنارے لگانے کی کوشش کررہے ہیں، دن رات بیان دیا جاتا ہے پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے، یہ وہ عناد پرست ہے جوکہتا ہے وہ ہے توٹھیک ورنہ پاکستان کے تین ٹکڑے ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین ماہ ہوگئے،ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام نہیں لگا، تیل اورگیس کی قیمتوں کا اختیارمیرے پاس نہیں، جب گیس کی 3 ڈالرتھی توانہوں نے نہیں خریدی، کیا کسی نے نوٹس لیا، دھرنے کے دوران کس نے کہا تھا بجلی بلوں کو آگ لگا دو، کسی نے نوٹس نہیں لیا تھا، اگر شیخ مجیب الرحمان مرحوم ہار جاتا تو غدار کہلاتا، جیت گیا تو ہیروبن گیا، ایک پارٹی کا لیڈر کہتا ہے بجلی کے بل جلا دو، ٹیکس مت دو کسی نے نوٹس نہیں لیا، چینی صدرکے دورے کے دوران منتیں کیں اٹھ جاؤ قیامت نہیں آجائے گی، چینی صدرکا دورہ موخرہونے سے پاکستان کا نقصان ہوا، اس وقت کسی نے نوٹس نہیں لیا تھا، کیا دہرا معیارچل سکتا ہے۔
عدل انصاف نہیں ہو گا تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا
شہباز شریف نے کہا کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی اور عمران نیازی نے اسمبلی توڑنے کی کوشش کی، مارچ میں آئین شکنی پر ان کو تو کسی نے نہیں بلایا، اگر اسی طرح معاملات چلتے رہے تو قائد کی روح ہمیشہ کے لیے تڑپتی رہے گی، لاکھوں لوگوں نے اس لیے قربانیاں نہیں دی تھی، اگر ملک کے اندر قانون، آئین اور انصاف کو آگے نہ بڑھایا تو پھر تاریخ میں کوئی یاد نہیں رکھے گا، بشیرمیمن نے کہا اسے عمران نیازی نے کیسز بنانے کا کہا، بشیر میمن نے کیسز بنانے سے انکار کیا کیا کسی نے نوٹس لیا؟ عمران نیازی کے دورمیں ہماری ضمانتیں میرٹ پرہوئی، برطانیہ این سی اے کو شہزاد اکبر نے خط لکھا پونے دوسال انکوائری ہوئی، اللہ نے کرم کیا ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ 22 کروڑعوام پریشان ہے اتنی بڑی دھاندلی، دہرا معیار ہو اورانصاف دینے والا نہ ہو، اگر عدل انصاف نہیں ہو گا تو ملک آگے نہیں چل سکتا، عدلیہ کا دہرا معیارنہیں ہونا چاہیے۔حالات مشکل ضرورہے ہم اس کی فسطائیت، ذہنیت کا مقابلہ کریں گے جھکیں گے نہیں، میں نے بچوں کولیپ ٹاپ دیئے کلاشنکوف نہیں دی، میں وہی شہبازشریف ہوں جس نے یونیورسٹیاں، پل، ہسپتال بنائے، جب تک میرے قائد اورایوان کا اعتماد ہے اپنی کوشش کرتا رہونگا، ہم ان چیلنجزسے نمٹیں گے، اگرہم میں اتحاد،جذبہ رہا توپاکستان کوعظیم بنائیں گے۔