لاہور: (ویب ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر دو عالمی طاقتیں چاہتی ہیں پاکستان ان کے درمیان سفارتی کردار ادا کرے تو امریکا اور چین کے درمیان اختلافات دور کرنے میں مدد کیلئے تیار ہیں۔
عالمی ادارے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے روایتی طور پر چین اور امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہیں، اگر چین اور امریکا چاہیں تو پاکستان ان اختلافات کو ختم کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے میں خوش ہو گا جیسا کہ ہم نے ماضی میں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تصادم کے بجائے تعاون پر یقین رکھتا ہے، عالمی تعلقات کا یہ بنیادی محرک ہونا چاہیے۔ دنیا سرد جنگ یا بلاکسی سیاست کے کسی اور دور میں آنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مجھے یقین ہے کورونا وائرس کی وبائی امراض اور روس کے ساتھ یوکرین کی جنگ کے بڑے بحران کے اثرات سے عالمی معیشت پر سنگین نتائج ہونگے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پہلے ہی سماجی و اقتصادی بہبود کے لیے عالمی اثرات سے دوچار ہے اورہم عالمی سطح پر دشمنی کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجوں میں اضافہ نہیں چاہتے۔ پاکستان روس سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہشمند ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو عدم اعتماد میں آئینی طریقے سے ہٹایا اور ملک کی باگ ڈور سنبھالی، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مائنس عمران خان پر متفق تھیں اور چاہتے تھے تمام جماعتیں ملکر وسیع نمائندہ حکومت بنائیں اور عوام کو درپیش ضروری مسائل کو حل کر سکیں۔ 2018 کے پچھلے عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے لحاظ سے، وہ سیاسی جماعتیں جو مخلوط حکومت کا حصہ ہیں، 70 فیصد ووٹروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت حقیقی معنوں میں قومی ہے۔ اتحادی حکومت اقتصادی اصلاحات اور استحکام کے متفقہ قومی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ یہ اولین ترجیح ہے۔ ہم باہمی مفادات کی بنیاد پر دوست ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے علاوہ گورننس کو موثر اور خدمت پر مبنی بنانے پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ میں نے جس قومی ایجنڈے کا ذکر کیا ہے اس کا وسیع البنیاد حمایت حاصل ہے کیونکہ لوگ مسائل کی نازکیت کو سمجھتے ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
کسی پاکستانی وزیراعظم کی مدت پوری نہ کرنے اور ملک میں جاری سیاسی غیر یقینی ختم کرنے کے لیے اپنے کردار سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سمجھنا ضروری ہے ہم ایک نوجوان جمہوریت ہیں۔ ہمیں جمہوری سیاست کے طور پر تیار اور پختہ ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ سیاسی ارتقاء ہمیشہ قیمت کے ساتھ آتا ہے۔ سچ پوچھیں تو جمہوریت کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں کو ڈیلیوری کو بہتر بنانا ہوگا۔ سیاسی نظام تبھی مضبوط ہو سکتا ہے اور اس کی جڑیں گہری ہو سکتی ہیں جب اس کی ملکیت بڑے پیمانے پر عوام کی ہو، جو کہ موثر عوامی خدمات کی فراہمی سے ممکن ہے۔
گزشتہ سال اگست میں افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد سے علاقائی مسائل پر بھی بات کرتے وزیراعظم نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو افغانستان کی نازک انسانی اور اقتصادی صورتحال کے پیش نظر جنگ زدہ ملک کے ساتھ رابطے جاری رکھنے اور ان کے مالیاتی اثاثوں کو غیر منجمد کرنا چاہیے۔ ہم افغان عبوری حکومت کیساتھ تمام افغانوں حقوق کے احترام، بشمول لڑکیوں کی تعلیم، موثر انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں پر بات کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام پرعملدرآمد کیلئے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا: وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں جو مشترکہ دلچسپی کے مختلف شعبوں پر محیط ہیں۔ ہماری کوشش ہے باہمی احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد پر وسیع البنیاد اور پائیدار شراکت داری قائم کی جائے۔ وزیر خارجہ نے نیویارک میں امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ دو ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ اس سال ہم پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم نے صحت، توانائی، آب و ہوا، سرمایہ کاری اور تجارت کے شعبوں میں مکالمے کا آغاز کیا ہے۔ یہ ڈائیلاگ ہمارے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہم نے امریکا کے ساتھ ہیلتھ ڈائیلاگ کا انعقاد کیا، جس سے صحت کے شعبے میں دو طرفہ تعاون کو مزید آسان بنانے میں مدد ملے گی۔ ہمیں امسال تجارت اور سرمایہ کاری کے فریم ورک معاہدے (TIFA) کی وزارتی سطح کے اجلاس کی بھی امید ہے۔ ہم نے دو طرفہ تجارتی اور تجارتی تعلقات کو تلاش کرنے کے لیے امریکا سے اعلیٰ سطح کے دورے کیے ہیں۔ کچھ امریکی کمپنیاں پاکستان میں بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور تجارتی تعلقات بڑھ رہے ہیں، جن کے حصول کے لیے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ ہم بڑی امریکی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہ پاکستان کی منافع بخش مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں اور تجارتی روابط کو فروغ دیں۔
وزیراعظم سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی پوچھا گیا، جن میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔ اس پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان ریاستی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، جس کی منصوبہ بندی اور مالی معاونت دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب کی گئی ۔ چینی شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے حملوں کے لیے پاک-چین سٹریٹجک پارٹنرشپ کے خلاف دشمن قوتوں کی مدد سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایسی قوتیں پاکستان کے چند حصوں خاص طور پر بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے غیر قانونی اور یکطرفہ کارروائیاں علاقائی امن کے قیام کی ہماری کوششوں کو ایک بہت بڑا دھچکا تھا جہاں نئی دہلی سخت قوانین، متعصب عدلیہ اور مضبوط بازوؤں کے ہتھکنڈوں کے ذریعے وادی پر وحشیانہ فوجی قبضے کو برقرار رکھے ہوئے ہے جس میں وحشیانہ طاقت کا بے دریغ استعمال اور مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو غیر قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوششیں شامل ہیں، یہ کوششیں استحکام کو متاثر کرنے پر بھی تلی ہیں، پاکستان باہمی احترام اور خود مختاری برابری کی بنیاد پر خطے میں امن کے فروغ کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے۔ ہم نے کہا ہے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر کا تنازع ہے جس کے حل سے تعاون کے نئے راستے کھلیں گے۔ پاکستان امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے جذبے کے ساتھ ایک مساوی، کھلی اور جامع ایشیا پیسیفک کمیونٹی کی تعمیر کی حمایت کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ایشیا پیسیفک میں بلاکس کا قیام صرف تقسیم اور تصادم کو ہوا دے گا، ہتھیاروں کی دوڑ کو بڑھا دے گا اور خطے اور اس سے باہر عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
کسی پاکستانی وزیراعظم کی مدت پوری نہ کرنے اور ملک میں جاری سیاسی غیر یقینی ختم کرنے کے لیے اپنے کردار سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سمجھنا ضروری ہے ہم ایک نوجوان جمہوریت ہیں۔ ہمیں جمہوری سیاست کے طور پر تیار اور پختہ ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ سیاسی ارتقاء ہمیشہ قیمت کے ساتھ آتا ہے۔ سچ پوچھیں تو جمہوریت کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں کو ڈیلیوری کو بہتر بنانا ہوگا۔ سیاسی نظام تبھی مضبوط ہو سکتا ہے اور اس کی جڑیں گہری ہو سکتی ہیں جب اس کی ملکیت بڑے پیمانے پر عوام کی ہو، جو کہ موثر عوامی خدمات کی فراہمی سے ممکن ہے۔