اسلام میں دوستی کا معیار

Published On 19 August,2022 09:52 am

لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت اور مزاج میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ تنہائی سے گھبراتا ہے اور اپنے اوقات کو خوشگوار گزارنے کیلئے دوست کو تلاش کرتا ہے تاکہ اس سے دل کی باتیں کہہ سکے، گپ شپ کر سکے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے نیک دوست اور ہم نشین بنانے کی ترغیب دی ہے۔ اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے کو لازمی قرار دیا ہے اور کفار، فساق اور بداخلاق دوستوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔

نیک لوگوں کو دوست بناؤ: حضرت عمران بن حطانؒ کہتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں گیا تو وہاں پر حضرت ابوذرؓ چادر سے گوٹھ مارے اکیلے تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا، اے ابوذر! یہ تنہائی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟ آپؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ بُرے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت، تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر جبکہ بری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 4639)۔

دوستی کی بنیاد اللہ کی رضا ہو: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیں گے‘‘۔ (1)عدل کرنے والا حکمران، (2) جوانی میں عبادت کرنے والا، (3) جس کا دل مسجد میں لگا رہے، (4) وہ دو لوگ جو اللہ کیلئے آپس میں دوستی اور محبت کریں، ان کا آپس میں جمع ہونا اور جدا ہونا اللہ کیلئے ہو۔ (5) تنہائی میں اللہ کا ذکر کر کے رونے والا۔ (6) حسب نسب والی حسین و جمیل عورت کی دعوت گناہ (حرام کاری) کو اللہ کے خوف سے چھوڑنے والا، (7)اس طرح چھپا کر صدقہ دینے والا کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں نے کیا خرچ کیا ہے۔ (مؤطا المالک، رقم الحدیث: 1501)

اگر کبھی عورت کے دل میں شیطان غلبہ پالے اور وہ گناہ کی دعوت دے تو اس وقت اس سے کہا جائے کہ میں اس بارے اللہ سے ڈرتا ہوں۔ بہت صبر آزما مرحلہ ہے لیکن اس کی جزا بہت بڑی ہے چنانچہ قیامت کے دن جب سورج بہت ہی قریب ہو گا اور روز حشر کی گرمی لوگوں کو جھلسا رہی ہو گی اس وقت اللہ کریم ایسے شخص کو اپنے عرش کا سایہ فراہم کریں گے۔

قرآن والوں سے دوستی لگائیں: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’قرآن کریم ہر ایک سے زیادہ فضیلت والا ہے، جس نے قرآن کریم کی تعظیم کی تو درحقیقت اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے قرآن کریم کی بے قدری کی درحقیقت اس نے اللہ تعالیٰ کے حق کی بے قدری کی۔ حاملین قرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت میں ہر طرف سے لپٹے ہوئے ہیں۔ کلام اللہ کی عظمت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے نورِ ہدایت میں ملبوس ہیں۔ جنہوں نے ان حاملین قرآن سے دوستی رکھی تو انہوں نے اللہ سے محبت کا رشتہ جوڑ لیا اور جنہوں نے ان سے دشمنی رکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی۔ (تفسیر القرطبی)

ذکر اللہ کرنے والوں سے دوستی لگائیں: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ (مقرر کردہ) فرشتے ذکر اللہ کرنے والوں کو تلاش کرنے کیلئے مختلف جگہوں پر چکر لگاتے ہیں اور اس دوران جب وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوں تو ایک دوسروں کو کہتے ہیں کہ آؤ ہمیں منزل مقصود مل گئی۔ چنانچہ وہ فرشتے ان ذکر کرنے والوں کو آسمان دنیا تک اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود (ذکر اللہ کرنے والوں کی فضیلت اور مرتبے کو ظاہر کرنے کیلئے)فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ میرے بندے کیا کر رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! آپ کی پاکی، بڑائی، تعریف اور بزرگی بیان کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ آپ کی پہلے سے بڑھ کر عبادت، بزرگی، بڑائی اور پاکی بیان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کیا مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھرتو وہ جنت کے اور ہی زیادہ حریص اور زیادہ اس کی طرف رغبت کرنے والے بن جائیں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جہنم سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا بھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جہنم کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ اس جہنم سے دور رہنے کی اور زیادہ کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان سب کی بخشش کر دی ہے۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ( اے اللہ ) ان جماعت میں فلاں شخص ذکر اللہ کے بجائے اپنی کسی ضرورت کے تحت آیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ایسی خوش قسمت جماعت ہے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والاشخص(خواہ وہ ذکر نہ بھی کر رہا ہو تب بھی وہ )محروم نہیں ہوتا۔(صحیح البخاری: 6408)

نیک لوگوں سے دوستی لگائیں: قراآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو‘‘ (التوبہ: 119)۔ ان لوگوں کے ساتھ رہو جو تقویٰ میں سچے ہیں، اللہ تمہیں بھی تقویٰ عطا فرمادیں گے۔ یاد رکھیں کہ اپنی زندگی کے اکثر اوقات متقین لوگوں کے ساتھ گزارنے سے اللہ تقویٰ جیسی دولت عطا فرماتے ہیں۔ علامہ سید محمود آلوسیؒ فرماتے ہیں: ان کے ساتھ اتنا زیادہ رہو کہ تم بھی ان جیسے بن جاؤ۔ آج کل کی دوستیاں: آج کل کی دوستیوں کا معیار نیکی اور تقویٰ نہیں رہا۔ دنیاوی مفادات، بیہودہ مجالس، لہو ولعب اور گناہوں کی جگہیں دوستی کا معیار بن چکی ہیں۔ وقت گزاری کیلئے لوگ ایک جمع ہوتے ہیں جہاں وہ کسی کی غیبت، عیب گوئی، بہتان طرازی، دل آزاری اور اپنے گناہوں کو ایک دوسرے کے سامنے فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔

بیہودہ مجالس سے دور رہیں: اس طرح کی مجالس سے قرآن کریم نے دور رہنے کا حکم دیا ہے کہ وہ عباد الرحمٰن غلط کام میں شریک نہیں ہوتے اور بیہودہ مجالس کے پاس شرافت سے گزر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف ’’بری مجالس سے دوری‘‘ ہے۔ کسی بیہودہ مجلس پر گزر ہو تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ بے حیائی، ناچ گانا، محفل موسیقی، محفل قوالی، سالگرہ کی مجالس، شراب و کباب کی مجالس، غیر مسلموں کے تہواروں الغرض کسی بھی ناجائز اور ناحق کام کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔

لمحہ فکریہ: ابھی وقت ہے اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں، دوست و احباب پر نظر کریں ایسے لوگ جو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، ان اہل اللہ، علماء و صلحاء سے دوستی اور تعلق بنائیں بھی اور نبھائیں بھی۔ ان کے پاس کثرت سے آنا جانا اور اٹھنا بیٹھنا رکھیں اور جو لوگ دوستی کی آڑ میں نیکی میں رکاوٹ بنیں، برائی کیلئے راہ ہموار کریں اور گناہوں پر مجبور کریں ان سے خود کو بچائیں۔

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔
 

Advertisement