لاہور: (خاور نیازی) میرے سامنے اس وقت خواندگی کے حوالے سے پانچ رپورٹیں پڑی ہیں۔ ان میں یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ ،پاکستان کا ایک چھوٹاسا گاؤں رسول پور ، ایک کمیونسٹ ملک کیوبا ، جاپان اور وطن عزیز پاکستان شامل ہیں۔
سب سے پہلے پاکستان: پاکستان کی اقتصادی سروے رپورٹ2021-22 کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 62.8فیصد ہو چکی ہے جو سال گزشتہ کے مقابلے میں 0.4فیصد زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ ’’ گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ ایجنسی ‘‘ نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی شرح خواندگی کو57فیصد قرار دیا تھا۔ پاکستان کی 43 فیصد آبادی یا تقریبا ساڑھے 9کروڑافراد ایسے ہیں جنہوں نے سکولوں کی شکل ہی نہیں دیکھی۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے۔یہاں دو کروڑ 28 لاکھ بچے جن کی عمریں 5سال سے 16 سال کے درمیان ہیں نے سکولوں کا رخ ہی نہیں کیا جبکہ 5 سال سے 9سال کی عمر کے 50 لاکھ بچوں نے سکول جانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسی طرح 10سال سے 14سال کے ایک کروڑ 14 لاکھ بچے ابتدائی تعلیم ہی حاصل نہیں کر پاتے۔
حکومت نے جی ڈی پی کاصرف 1.7 فیصد تعلیم کیلئے مختص کیا،جو خطہ میں سب سے کم ہے۔ جس سے حکومت کی تعلیمی ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔عالمی طور پر تعلیمی بجٹ کیلئے جی ڈی پی کا کم ازکم 4 فیصد مختص کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔یہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں عام طور پر خواندہ ان افراد کو قرار دیا جاتا ہے جو بمشکل خط یا تحریر لکھ پڑھ سکتے ہوں۔ اس ’’ معیار ‘‘ کے بعد یہ اندازہ کرنے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ درحقیقت ہماری ’’اصل شرح خواندگی ‘‘ کا معیار کیا ہو گا۔
رسول پور، 100 فیصدشرح خواندگی والا شہر : ’’رسول پور ‘‘ جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور کا ایک گاؤں ہے جس کی آبادی تین ہزار سے بھی کم ہے۔ بنیادی طور پر یہ آبادی ایک بلوچ قبیلے پر مشتمل ہے جو کئی دہائیاں پہلے بلوچستان سے یہاں ہجرت کر آئے تھے۔یہ گاؤں دو ہائی سکولوں اور ایک پرائمری سکول پر مشتمل ہے۔ہائی سکول کے بعدتعلیم مکمل کرنے کیلئے طلباء کوجام شورکے کالج جانا پڑتا ہے۔ترک خبر رساں ایجنسی ’’ انا دولو ‘‘ کے مطابق گزشتہ سال 8ستمبر کو یہاں کے مقامی افراد عالمی یوم خواندگی منا کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے اور فخریہ انداز میں یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ان کے اس مثالی گاؤں کی شرح خواندگی 100فیصد ہے حتیٰ کہ گاؤں کی تمام خواتین بھی تعلیم یافتہ ہیں۔
جرائم کی شرح پچھلے ایک سو سال سے صفر ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کی صفائی ستھرائی بھی قابل ذکر ہونے کے ساتھ ساتھ پورے گاؤں میں سگریٹ نوشی اور ہر قسم کے نشے پر پابندی ہے۔ ترک خبر رساں ایجنسی کے مطابق مقامی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی پرنسپل بتا رہی تھیں کہ جب دو سال پہلے میں یہاں ٹرانسفر ہو کر آئی تو جس بات نے مجھے حیران کیا وہ یہاں کے لوگوں کی سوچ تھی کہ ہر فرد نے ہائی سکول تعلیم کومکمل کرنا ہے۔ ورنہ بزرگ انہیں سماجی سرگرمیوں میں شرکت کی اجازت ہی نہیں دیتے۔
فن لینڈ ،جہاں کوئی ناخواندہ نہیں: فن لینڈ شمالی یورپ کا 55لاکھ آبادی کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 65 واں اور آبادی کے لحاظ سے 114 واں ملک ہے۔ خواندگی کی عالمی درجہ بندی میں یہ اس وقت بھی پہلی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے جبکہ سپر پاور امریکہ 20ویں نمبر پر ہے۔ آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ فن لینڈ کے کسی بھی سکول میں بچوں کی تعداد 195 سے زیادہ نہیں ہوتی جبکہ ایک ٹیچر زیادہ سے زیادہ 19 بچوں کی کلاس پڑھاتا ہے۔ پورے ہفتے یہاں کے سکولوں میں صرف 20 گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے جبکہ دنیاکی سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ کے سکولوں میں ہوتی ہے جو 75منٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر ٹیچر کو ہر روز سکول میں دوگھنٹے اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھانے پر صرف کرنے ہوتے ہیں۔ یہاں کے سکولوں کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ سبجیکٹ نام کی کوئی چیز سکولوں میں نہیں پائی جاتی۔ یہاں پر سات سال سے کم عمر بچہ سکول میں داخل نہیں ہو سکتا اور پندرہ سال سے پہلے کسی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان نہیں ہوتا۔
کیوبا،شرح خواندگی بڑھانے کی ایک اور مثال:کیوبا میں انقلاب کے بعد 1959ء میں فیڈل کاسترو نے جہاں دیگر شعبوں میں انقلابی اقدامات کا آغاز کیا وہیں تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی۔ اگرچہ 1957 ء کی مردم شماری کے مطابق کیوبا میں شرح خواندگی 77فیصد تھی جن میں 23 فیصد ناخواندہ افراد کی اکثریت دس لاکھ بالغ افراد پر مشتمل تھی۔ حکومت نے 1961ء کو تعلیم کا سال قرار دے کر ملک گیر خواندگی مہم کا آغاز کیا۔ جس کے ذریعے رضاکاروں کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جو محلوں ، کھیتوں ، کارخانوں اور گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو تعلیم دیتی رہیں۔ کہتے ہیں اس مہم میں ڈھائی لاکھ افراد نے حصہ لیا تھا جن کی کوششوں سے 1962ء تک کیوبا کی شرح خواندگی 96فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
جاپان، استاد کا رتبہ:جاپان دنیا کاواحد ملک ہے جہاں استاد کو سب سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ یہاں کا نظام تعلیم ، تعلیم سے زیادہ تربیت پر توجہ دیتا ہے۔جاپان 99فیصد شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں شرح ناخواندگی کے اسباب: وطن عزیز میں آبادی کا بڑھتا بے قابو سیلاب ناخواندگی کاسب سے بڑا سبب بن رہا ہے۔ سرکاری سکولوں کی کمی ، مہنگی پرائیویٹ تعلیم بھی خواندگی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ میرٹ کا قتل ، اقربا ء پروری اور سفارش کلچر کے باعث محنت کش اور کم آمدن طبقہ اپنے بچوں کو ہوش سنبھالتے ہی کمائی کا ذریعہ بنانے کو ترجیح دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا حل کیوبا کی طرح ’’ تعلیمی انقلاب ‘‘ ، فن لینڈ کی طرح ’’ نظام تعلیم کی ازسرنو تشکیل ‘‘ ، جاپان کی طرح ’’ استاد کی عزت ‘‘ اور رسول پور کے باسیوں کی طرح ’’ انقلابی سوچ ‘‘ کے احیاء میں پوشیدہ ہے۔
خاور نیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔