ایک اور عالمی جنگ کا خطرہ؟

Published On 27 September,2022 11:50 am

لاہور: (زینب عرفان) جتنی بھی تاریخ انسانی سے ہم واقف ہیں اس میں طاقت اور وسائل کی لڑائی سب سے اہم رہی ہے۔ یورپی انقلاب ہو یا سرد جنگ سب کا مقصد طاقت کا حصول ہی رہا ہے۔

یہ بات پڑھنے اور سننے میں شاید ناقابل یقین لگے لیکن آج سے 400سال قبل نوسٹرا ڈیمس نامی ایک فرانسیسی نجومی نے کچھ ایسی پیشگوئیاں کی تھیں جو کسی نہ کسی صدی میں درست ثابت ہوئیں۔ نوسٹرا ڈیمس کی معروف پیشگوئیوں میں فرانسیسی انقلاب، ہٹلر کا عروج اور جاپان پر کئے جانے والے ایٹمی حملے شامل ہیں۔1555ء میں کی جانے والی یہ پیشگوئیاں آج بھی محققین اور مؤرخین کیلئے باعث حیرت اور تشویش ہیں۔

نوسٹراڈیمس کی کتاب میں موجودہ روس یوکرین تنازع کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔اس پیشگوئی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسی تنازع کی وجہ سے دنیا کو ایک بہت بڑی جنگ کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پڑھنے میں یہ کسی فلم کے سکرپٹ جیسا لگا ہے،اگر ہم نوسٹرا ڈیمس کی پیشگوئیوں کو قیاس یا اس کے ذہن کی اختراع بھی سمجھ لیں تو بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کی رائے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

معروف دفاعی ماہر مائیکل ایون ہینلن اپنی کتابThe Senkaku Paradoxمیں لکھتے ہیں دنیا بھر میں چلنے والے چھوٹے تنازعات کسی بھی وقت ایک بڑی جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اٹلانٹک کانسل کے سکاؤ کروفٹ سینٹر آف سٹریٹرجی اینڈ سکیورٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر میتھیو کروئنگ نے بھی فارن پالیسی میگزین میں لکھے گئے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی تقریباً تمام تھیوریز ایک بہت بڑی جنگ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

اگر ہم خود بھی دنیا کے حالات کا مشاہدہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ جس قسم کی تنازعات اس وقت مختلف ممالک کے درمیان موجود ہیں یہ عارضی نوعیت کے نہیں ہیں اور نہ ہی کسی نتیجہ خیز فیصلے کے بغیر ختم ہوں گے۔ماہرین کا کہنا ہے بڑھتے ہوئے تنازعات کی وجہ دنیا پر حکمرانی کرنے یا قائم رکھنے کی خواہش ہے۔ مشرقی اور مغربی طاقتیں کئی برسوں سے اسی کوشش میں مصروف ہیں، مشرقی طاقتیں چاہتی ہیں کہ اب دنیا ان کی مرضی کے مطابق چلے جبکہ مغرب چاہتا ہے کہ اس کی حکمرانی اور اجاراداری قائم رہے۔دفاعی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق اگر دنیا کسی بڑی جنگ کی جانب بڑھتی ہے جو اس کا اہم مرکز انڈو پیسفک ریجن ہو گا جہاں چائنا ، جنوبی کوریا اور جاپان جیسے بڑی معیشت رکھنے والے ممالک واقع ہیں۔

دوسری عالمی جنگ میں اقوام عالم ایٹمی تباہی کا نظارہ دیکھ چکی تھیں، اس لئے جنگ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیاایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی۔وقت کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار صرف ایک ’’ سکیورٹی گارڈ‘‘ بن گئے جو کوئی بھی ملک اپنی حفاظت کیلئے رکھ سکتا ہے لیکن موجودہ حالات بالکل مختلف ہیں۔اب ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک نہ صرف ہتھیار رکھنے کی یاددہانی کرواتے ہیں بلکہ انہیں استعمال کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔

یوکرین پر حملے کے بعد روس نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ہے۔ اس لئے کوئی بھی ملک اس کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔شمالی کوریا بھی اپنے ملک میں ایسے کئی قوانین بنا چکا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کو یہ پیغا م دیتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی خودمختاری کی حفاظت کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے حالات بھی مسلسل مسائل کا شکار ہیں اور دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ بھارت کے چین کے ساتھ بھی تعلقات کچھ اچھے نہیںہیںایک ہی خطے میں ایٹمی طاقتوں کی موجود گی اور مسلسل خرابی کا شکار ہوتے باہمی تعلقات کسی بھی وقت ایک ایسی آگ کو ہوا دے سکتے ہیں جس کی لپیٹ میںصرف یہ خطہ نہیں بلکہ پوری دنیا آئے گی۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل میں طاقتور افواج رکھنے والے ممالک میں کوئی تنازع شدت اختیار کرتا ہے تو یہ دنیا کی پہلی بیلسٹک میزائل کی جنگ ہوگی۔ ایسی صورتحال امریکہ جیسے ممالک کو اپنی سالمیت اور خودمختاری کی حفاظت کا جواز فراہم کرے گی۔ اگر امریکہ جیسا ملک بھی جنگ میں شامل ہوتا ہے تو پھر اس جنگ کی آگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں قائم ادارے جن کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے، وہ اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں؟۔دنیا کو تیسری عالمی جنگ اور کسی بھی بڑے خطرے سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت حالات اس قدر الجھن کا شکار ہیں کہ کئی ممالک یہ فیصلہ نہیں کر پار ہے کہ انہیں مغربی نظام کا ساتھ دینا ہے یا مشرق میں ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔امریکی ہاؤس سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد سے ایک مرتبہ پھر امریکہ اور چائنا کے تعلقات میں شدت دیکھی جا سکتی ہے۔ آج بھی مشرق اور مغرب ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں ۔ اگر مسائل کا حل جلد تلاش نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ جنگ ہر ملک کے دروازے پر دستک دے رہی ہو گی۔

زینب عرفان ایم فل انٹرنیشنل ریلیشنز ہیں، بین الاقوامی تعلقات کے متعلق ان کے متعدد مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
 

Advertisement