اسلام میں جس طرح عبادات و فرائض پرزور دیاگیا ہے۔ اسی طرح اس دین نے کسبِ حلال اورطلب معاش کو بھی اہمیت دی ہے۔ہر مسلمان کےلئے اپنے دنیوی واخروی تمام معاملات میں شرعی احکام اور دینی تعلیمات کی پابندی لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ”اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاو ¿، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“ (البقرہ: 208)۔ کسی مسلمان کےلئے یہ جائز نہیں کہ وہ عبادات میں تو کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو اور معاملات اور معاشرتی مسائل میں اپنی من مانی کرے اور اپنے آپ کو شرعی پابندیوں سے آزاد تصور کرے۔ ہمارے دین کی وسعت و جامعیت ہے کہ اس میں عبادت کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات ومسائل کا مکمل بیان موجود ہے۔
دین اسلام میں معاشی زندگی کے مسائل او ران کے حل کو خصوصی اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر مسلمان آسانی کے ساتھ انہیں سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو سکے۔ نبی کریم ﷺ نے تجارت کو بطور پیشہ اپنایا او ربیشتر صحابہ کرام ؓکا محبوب مشغلہ بھی تجارت تھا۔ امت مسلمہ کےلئے حضورﷺ کی حیات طیبہ میں اسوہ حسنہ موجود ہے اورآپ ﷺکے بعد صحابہ کرام ؓکی پاک زندگیاں ہمارے لیے معیار حق ہیں۔ اس لیے یہ بات بلاخوفِ تردد کہی جاسکتی ہے کہ اکل حلال اور کسبِ معاش کاعمل آج کے دور میں بھی زیادہ ترتجارت کے ذریعے پوراکیا جاسکتاہے۔
کسبِ حلال کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے انسان کوحلال کھانے کی تلقین فرمائی۔اس حکم سے متعلق چندآیات کریمہ حسب ذیل ہیں۔ (1)”اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاو ¿، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“ (البقرہ:164)۔ (2)”اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاو ¿ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ،اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو“ (البقرہ: 172)۔ درج بالاآیات کریمہ سے معلو م ہواکہ اللہ تعالیٰ نے حلال کھانے اورحرام سے بچنے کا حکم دیا ہے۔نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا: ”جنت میں وہ جسم داخل نہیں ہوگاجسے حرام کی غذادی گئی“ (شعب الایمان:5759)۔ بروزقیامت جو سب سے پہلے سوالات انسان سے کیے جائیں گے ان میں ایک انسان کے ذرائع معاش کے متعلق ہو گا کہ وہ کہاں سے کماتا اور کیا کھاتا تھا۔ حضرت معاذؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں قدم حرکت نہیں کرسکیں گے حتیٰ کہ اس سے چار چیزوںکے متعلق سوال کیا جائے گا۔ عمر کو اس نے کہاں فنا کیا؟ جوانی کو کہاں بوسیدہ کیا؟ مال اس نے کہاں سے کمایااورکہاں خرچ کیا اور اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا“ (شعب الایمان: 1875) ۔جب رزق حلال کھانے اور کمانے کاحکم ہے توپھرہمیں چاہیے کہ اپنے ذریعہ معاش اوررزق حلال حاصل کرنے کے طریقے کو دیکھیں کہ کہیں وہ حرام تونہیں۔
بہترین رزق:
انسان کی بہترین کمائی اس کے ہاتھ کی ہے جسے وہ محنت،مزدوری اور تجارت کے ساتھ کماتا ہے۔ حضرت مقدام ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”کسی انسان نے اس آدمی سے بہتر روزی نہیں کھائی جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتاہے ۔ رسول اللہ ﷺ خودبھی ایک بہترین تاجر تھے جب تک بارنبوت آپ ﷺ کے کندھوں پر نہیں ڈالا گیا تو اس وقت تک آپ ﷺ نے تجارت پیشہ کو اختیار کیے رکھا۔ آپ ﷺ بھی بازار جایا کرتے تھے اور ضروری اشیاءکی خریدوفروخت کیا کرتے تھے۔ کفارمکہ نے آپ ﷺ پر جو اعتراضات کیے ان میں ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ: ”یہ کیسارسول ہے کہ جو کھانا کھاتاہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے“ (الفرقان: 7)۔ اسی طرح صحابہ کرام ؓ بھی بازاروں میں جا کر مختلف چیزوں کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ذیل میں خریدوفروخت کے شرعی آداب و احکام کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان کیاجاتاہے۔
بازارمیں داخل ہونے کی دعا: بازارمیں داخل ہونے سے پہلے مسنون دعاپڑھ لینی چاہیے۔نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا: ”جو شخص بازارمیں داخل ہوتے وقت دعاپڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کےلئے دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے، دس لاکھ گناہ مٹادیتاہے اوراس کےلئے جنت میں گھر بناتا ہے“ (ابن ماجہ: 2235)
شوروغل سے بچنا:
بہت سے لوگ بازاروں اور مارکیٹوں میں شوروغل کر کے ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں۔ ان کےلئے ایساکرنا درست نہیں ہے۔ رسول اللہﷺکے اوصاف حمیدہ میں سے چند اوصاف یہ بھی تھے کہ: ”آپ ﷺ نہ بد اخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج، اور نہ ہی بازاروں میں اونچی آوازسے بات کرتے ہیں اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف اور درگزر کر دیتے ہیں“(صحیح بخاری: 4838)
لین دین میں نرمی:
ہرمسلمان اپنے بھائی کےلئے آسانیاں پیدا کرے، کوئی چیز خرید رہا ہو تب بھی، فروخت کر رہا ہو تب بھی، دونوں صورتوں میں نرمی اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ رسول اللہﷺ نے دعا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت نازل کرے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی اور درگزرسے کام لینے والا ہو“ (صحیح بخاری: 2076)۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ”بےشک اللہ تعالیٰ اس آدمی سے محبت کرتا ہے جو خریدو فروخت اور ادائیگی میں آسان ہو اور اپنے حق سے کم پر راضی ہو جانے والا ہو“ (جامع ترمذی: 1319)۔ لہٰذا خریدار اور بیچنے والے دونوں پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے فائدہ کا سوچیں اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے نقصان کے درپے نہ ہو۔ صرف اپنے فائدہ کو مد نظر رکھ کے دوسرے کا نقصان کر دینا یہ ایک مومن کی علامت نہیں ہے۔
سچ سے برکت آنا اور جھوٹ سے اٹھ جانا:
جس طرح عام زندگی کے معاملات میں سچ کواہمیت دی جاتی ہے اور جھوٹ سے نفرت کی جاتی ہے اسی طرح خریدو فروخت کے معاملات طے کرتے وقت بھی یہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ حضرت رفاعہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ”بےشک تاجروں کو قیامت کے روزاس حال میں اٹھایا جائے گاکہ وہ گنہگارہوں گے، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا،نیکی کرتا رہا اورسچ بولتا رہا“ (جامع ترمذی: 1210)۔ لین دین میں سچ بولنے کی بناءپراللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتاہے اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے اس کی برکت کوختم کر دیتا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”خریداراوربیچنے والے کوجداہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودا طے کرلیں اوراگرچاہیں تو منسوخ کردیں، اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کریں تو ان کے سودے میں برکت آئے گی اور اگر وہ جھوٹ بول کر اور کسی بات کو چھپا کر خریدو فروخت کریں گے اس میں برکت ختم کر دی جائے گی“ (صحیح بخاری:2079)
عصرحاضرمیں خریدوفروخت میں بہت زیادہ جھوٹ کی آمیزش ہو چکی ہے۔ زیادہ تر بیچنے والے اپنے مال کوبیچتے وقت غلط بیانی سے کام لیتے ہیں جبکہ سچائی اور دیانتداری سے کام کرنے کا جہاں آخرت میں فائدہ ہے وہیں دنیا میں بھی اس کے بہتر نتائج نکلتے ہیں، لوگوں میں نیک نامی ہوتی ہے جس سے تجارت میں نکھارآتا ہے۔
مال کے عیب کوبیان کرنا:
فروخت کرنے والے پرلازم ہے کہ وہ جس چیزکوبیچ رہاہے اس میں اگر کوئی عیب ہے تو اسے خریدار کے سامنے پوری امانتداری سے بیان کر دے اورکسی قسم کے عیب کو مت چھپائے۔ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ”کسی کےلئے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیزفروخت کرے جب تک کہ اس کے عیبوں کوبیان نہ کر دے“ (مستدرک:2175)۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا: ”مسلمان مسلمان کابھائی ہے اورکسی مسلمان کےلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کوعیب دارچیز بیچے“( ابن ماجہ: 2246)
دھوکہ دہی سے بچنا:
خریدو فروخت کے معاملات میں دھوکہ دہی سے بچنابھی انتہائی ضروری ہے۔ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ کا گزر غلہ کے ایک ڈھیرسے ہوا۔ آپ ﷺ نے اس کے اندرہاتھ ڈالا تو آپﷺ کی انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپﷺنے پوچھا:اے غلہ بیچنے والے!یہ کیا ہے؟ اس نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ! اسے بارش نے ترکردیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:اسے تم نے اوپرکیوں نہ رکھا تا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے،جوشخص دھوکہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں“(صحیح مسلم: 102)۔ کسی عیب دارچیزکو اس کا عیب بتائے بغیر فروخت کرنا دھوکہ ہے، اور دھوکہ دینا اسلام میں قبیح اور ناجائز ہے۔
جھوٹی قسم کھاکرسامان بیچنا:
بعض اوقات تاجر حضرات اپنا سامان بیچنے کےلئے گاہکوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔یہ اس قدرسنگین گناہ ہے کہ قیامت کے روزایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ بات کرناپسندکرے گانہ ان کی طرف دیکھے گا ،بلکہ انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گا۔رسول اللہﷺکاارشادگرامی ہے: ”تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ بات کرے گانہ ان کی طرف دیکھے گا اورنہ انہیں پاک کرے گااوران کودردناک عذاب ہوگا۔ آپ ﷺنے یہ الفاظ تین دفعہ دہرائے۔ توحضرت ابوذرؓ نے کہا: وہ یقیناً ذلیل و رسوا ہوں گے اور خسارہ پائیں گے۔یارسول اللہ ﷺ! وہ کون لوگ ہیں؟آپﷺنے فرمایا: اپنے تہبند کو لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور اپنے سامان کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا“ (صحیح مسلم:106)۔
ناپ تول میں کمی کرنا:
ناپ تول میں کمی نہ کرنا تجارتی عمل کو بڑھانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، اللہ کریم نے بھی اس کا حکم دیا ہے: ”اور ناپ پورا رکھا کرو جب تم (کوئی چیز) ناپو اور (جب تولنے لگو تو) سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے (بھی) خوب تر ہے“ (بنی اسرائیل: 35)۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: ” اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کرتباہی مت مچاتے پھرو“ (ہود: 85 )۔ مذکورہ آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ ماپ تول میں کمی کرنااورلوگوں کوان کی چیزیں پوری نہ دینا فساد فی الارض کے زمرہ میں آتا ہے جو کہ حرام ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اس جرم کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالی، مہنگائی اور بادشاہ کے ظلم میں جکڑ لیا جاتا ہے“ (ابن ماجہ: 4019)
خریدوفروخت اورنماز:
اسلام تاجروں کےلئے یہ بھی اصول مقرر کرتا ہے کہ تجارت میں اس طرح مشغول نہ ہو ں کہ اپنے خالق اور مالک حقیقی ہی کو فراموش کر دیں۔ جو لوگ تجارت میں ڈوب کر مولائے حقیقی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ان کے کاروبار پر کبھی رحمتِ الٰہیہ متوجہ نہیں ہو سکتی، حقیقی رازق اللہ تعالیٰ ہے ،یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ انسان رزق کے حصول کےلئے رازق کو بھلا دے۔ کاروبار کرنے والوں کو چاہئے کہ دوران خریدو فروخت اگر نماز کا وقت آئے تو بغیرکسی تاخیرکے خریدوفروخت چھوڑ کر نماز پڑھیں۔
ایسے لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی۔ ارشاد ربانی ہے: ”ایسے آدمی جنہیں سوداگری اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر اور نماز کے پڑھنے اور زکوٰة کے دینے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی“ (النور: 37)۔
حرام اشیاءکی تجارت سے پرہیز:
ہر وہ چیزجس کاکھاناحرام ہے اس کی تجارت اور خریدوفروخت بھی حرام ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے جب اللہ تعالیٰ نے ان پرچربی کوحرام کیا تو انہوں نے اسے بیچ کراس کی قیمت کھا لی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کوئی چیز کھانا حرام کرتا ہے تواس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے“ (سنن ابی داو ¿د: 3488)۔ مثلاً شراب پینا اور اس کا کاروبار سب حرام ہے، اسی طرح جوچیزیں نشہ آور ہیں وہ اور ان کی خریدو فروخت اوران کی قیمت کھاناسب حرام ہیں۔
کسی کے سودے پرسوداکرنا:
اگر ایک آدمی نے سوداپکاکرلیاہے تو دوسرااس پرسودا نہ کرے،اسے بیع پر بیع کہتے ہیں جس سے رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا۔ آپﷺ کا ارشادگرامی ہے: ”مومندوسرے مومن کابھائی ہے اورکسی بھی مومن کےلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے“۔
ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان کی خصوصی تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہو چکی ہے