لاہور: (دنیا نیوز) پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی، احتجاج، ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے، حکومتی ممبران بھی پیچھے نہ رہے، ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی، خواتین ارکان بھی پیش پیش۔
ایک گھنٹہ انچاس منٹ کی تاخیر سے شروع ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سپیکرسبطین خان نے کی، اپوزیشن اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے، سپیکر نے بار بار اپوزیشن کو اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کی، انہوں نے کہا کہ آپ کی سینئر لیڈر شپ کو پتہ چل گیا کہ آپ احتجاج کر رہے ہیں اب بیٹھ جائیں ، اللہ محمد کے ناموں والے کاغذ نیچے کیوں پھینک رہے ہیں، اسمبلی ملازمین زمین سے کاغذ اٹھائیں خلیل طاہر سندھو آپ سٹاف کو کاغذ اٹھانے سے کیوں روک رہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد عمر اور شاہ محمود قریشی بھی گیلری میں موجود تھے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ طاہر خلیل سندھو، خواجہ سلمان رفیق اپنے اراکین کو پیچھے ہٹائیں، میں آٹھویں دفعہ کہہ رہا ہوں اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں وگرنہ مجھے رولز کے مطابق کارروائی کرنی پڑے گی، جو اراکین کارروائی میں خلل ڈال رہے ہیں ان کے نام نوٹ کریں۔
دوسری جانب اپوزیشن اراکین مسلسل ایوان مین احتجاج کرتے رہے، راحیلہ نعیم نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں، حکومت کو بحران سے بچائیں، جس پر سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ووٹ حکومت نے لینا ہے، اپوزیشن کو پریشانی کیوں ہو رہی ہے؟ سپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کو چیلنج کیا کہ اگر اپ کو لگتا ہے کہ نمبرز آپ کے پاس زیادہ ہیں تو عدم اعتماد لے آئیں، جس پر اپوزیشن کی جانب سے ڈیسک بجانے کا سلسلہ جاری رہا، سپیکر نے کہا کہ اذان کے دوران احتجاج نہ کریں اللہ سے ڈریں۔
سردار شہاب الدین نے کہا کہ آج تیسرا دن ہے، تینوں دن وقفہ سوالات نہیں ہو سکا، ہم پوری تیاری سے آتے ہیں اور یہ صرف اجلاس کو خراب کرتے ہیں، آج میں گزارش کروں گا ان کے خلاف ضابطہ کی کارروائی کی جائے یہ ایجنڈا پھاڑ دیتے ہیں نہ اللہ کو مانتے ہیں نہ اس کے کلام کو مانتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں وقفہ سوالات میں مخدوم عثمان نے ایوان میں حکومت کو اقلیت میں قرار دے دیا، حکومت اعتماد کا ووٹ لے پھر کارروائی چلائے، مخدوم شہاب الدین نے کہا کہ حکومت جب اعتماد کا ووٹ لے گی پھر ہی چل سکتی ہے ہمیں پتہ ہے، فی الحال وزیر اعلیٰ بھی ہے، ان کی کابینہ بھی ہے، اس لیے کارروائی چلنے دیں، ابھی معاملہ عدالت میں ہے، تین دن سے اپوزئشن نے ڈرامہ لگا رکھا ہے اپوزیشن کے خلاف ایکشن لیا جائے جو اراکین اجلاس نہیں چلنے دیتے ان کے خلاف ایکشن لیں۔
ن لیگی ایم پی اے ارشد ملک نے کہا کہ صوبے کی بد قسمتی ہے کہ سپیکر آئینی سربراہ گورنر کا حکم نہیں مان رہا، میں کس کابینہ سے سوال کروں جس کو عدلیہ نے معطل کیا ہوا ہے؟ آپ کس حیثیت سے بیٹھے ہوئے ہیں؟
منیب الحق نے کہا کہ یہ جعلی حکومت ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ کیوں نہیں لے رہے، یہ ساری کارروائی جعلی ہے، اعتماد کا ووٹ لیا جائے، کیا آئین نہیں کہتا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا قانونی حق ہے، آپ کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں، مظہر اقبال نے کہا کہ آپ اعتماد کا ووٹ کیوں نہیں لے رہے، اعتماد کا ووٹ لیا جائے، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے طاہر پرویز نے کہا کہ جو وزیر اعلیٰ اعتماد کھو دے اسے ہم نہیں مانتے، جس پر سپیکر نے کہا کہ کل سماعت ہے، عدالت کہے گی تو ووٹ لے لیں گے، آپ ڈاکٹر ہیں، پڑھے لکھے ہیں آپ توہین عدالت کر رہے ہیں، عدالت پر تنقید نہ کریں توہین عدالت نہ کریں۔
صوبائی وزیر پارلیمانی امور محمد بشارت راجہ نے مختلف محکموں کی 10 آڈٹ رپورٹس ایوان میں پیش کر دیں۔
ملک صہیب بھرت نے کہا کہ جناب سپیکر میرا سوال نمبر 186 ہے تین دن میں یہاں پر ڈرامے بازی چل رہی ہے یہ نشستیں چھوڑ دیں، ہماری حکومت ہے، بلال اکبر خان نے کہا کہ آپ ہاؤس کے کسٹوڈین ہیں آپ تحریک انصاف کے نہ بنیں، انہیں موقع دے رہے ہیں تو ہمیں بھی دیں، سوال نمبر میرا بھی 186 ہے اس کا جواب دیں، اراکین کی عدم دلچسپی کے باعث وقفہ سوالات ختم کر دیا گیا۔