کراچی: (دنیا نیوز) انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا۔
انسداد دہشتگردی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پراسکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عدالت نے راؤ انواز سمیت تمام کو بری کر دیا، بری ہونے والے دیگر ملزمان میں ڈی ایس پی قمر احمد، امان اللہ مروت اور دیگر شامل ہیں۔
کیس کا پس منظر
13 جنوری 2018 کو اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا کہ ایک پولیس مقابلے کے دوران 3 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔
ہلاک ہونے والے ایک شخص کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی، سوشل میڈیا پر نقیب اللّٰہ سے متعلق باتیں وائرل ہوئیں تو میڈیا نے بھی اس پر آواز اٹھائی، پشتون تحفظ موومنٹ بھی اسی واقعے کے بعد منظر عام پر آئی۔
بعد ازاں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار نے اس معاملے کا نوٹس لیا۔
نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود نے ایک ایف آئی آر بھی درج کرائی جس میں کہا گیا کہ 3 جنوری 2018 کو سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب اللہ اور دیگر دو افراد حضرت علی اور قاسم کو اٹھاکر لے گئے، 6 جنوری کو حضرت علی اور قاسم کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن نقیب اللہ کو قید رکھا گیا۔
محمد خان محسود (ان کا اب اتقال ہوچکا ہے) نے موقف اختیار کیا کہ 17 جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا ہے۔
عدالت نے راؤ انوار اور دیگر ملزمان پر 25 مارچ 2019 کو فرد جرم عائد کی تھی اور ملزمان کے خلاف 60 گواہان پیش ہوئے تھے۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے خود نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود سے ملاقات کی اور انہیں انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا لیکن انہیں انصاف نہ مل سکا، اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلانے کی امید ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
گزشتہ 5 برسوں کے دوران ناصرف محمد خان محسود کا انتقال ہو گیا بلکہ راؤ انوار کے خلاف بیان دینے والے اہلکار بھی اپنے بیانات سے مکر گئے۔