لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا کہ انہیں رمضان المبارک جیسا بابرکت مہینہ عطا کیا، اس میں نیکی کی توفیق بھی دی، اللہ کے نیک بندوں نے صدقہ خیرات کیا، قرآن پاک کی تلاوت کی، نماز تراویح کا اہتمام کیا، اللہ تعالیٰ نے رزق میں بھی وسعت و برکت عطا فرمائی، جس کے سبب مسلمانوں کے اندر انسانی ہمدردی اور غمخواری کے جذبات بیدار ہوئے، یہ سب رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کی برکات تھیں، اس مبارک مہینے کے بعد آنے والے مہینے کو بھی خاص مقام اور فضیلت حاصل ہے۔
شوّال قمری سال کے دسویں مہینے کا نام ہے، سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ربانی ہے: ’’سو پھر لو اس ملک میں چار مہینے‘‘۔اْردو دائرہ معارف اسلامیہ(جلد 11، صفحہ نمبر 518) کے مطابق مفسرین کے نزدیک ان 4 مہینوں میں شوّال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم کے مہینے شامل ہیں۔ چنانچہ شوّال ان مہینوں میں ہے جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے، ان چار مہینوں میں عرب اپنے ملک میں بغیر کسی قسم کے حملے بلا خوف چل پھر سکتے تھے، اس کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر 5 میں آیا ہے۔
شوّال کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہ مسرت و انبساط کا مژدہ سناتا ہے، خالق حقیقی ایک سخی دریا بن کر صحرا صحرا عصیاں کو سیراب کر دیتا ہے، گناہوں کے صحراؤں میں جب گردباد کی سیٹیاں بجتی ہیں اور جب عصیاں کے وسیع و عریض صحرا کے باسی جھلستے ہیں تو تھکے ہارے ہانپتے گناہگاروں اور خطا کاروں کے احساس ندامت کو دیکھ کر خالق حقیقی کی بے کراں شفقت جوش مارتی ہے، پیاس کے صحرا میں پھر انہیں یزداں زمزم پلاتا ہے: بقول سید ضمیر جعفری
وقت کے ماتھے پہ جس کی روشنی لکھی گئی
وہ رُخ زیبا ہے ترا وہ ید بیضا تو ہی
کس نے تھاما رات کے ڈوبے ہوئے سورج کا ہاتھ
روشنی کو صبح کی چوکھٹ پہ لے آیا تو ہی
کون ہے تیرے سوا، دکھیا دلوں کا داد رس
خلق کا مولا تو ہی ملجا تو ہی ماوا توہی
مولانا محمد جونا گڑھی و مولانا صلاح الدین یوسف، قرآن حکیم مع ترجمہ و تفسیر، مطبوعہ شاہ فہد قرآن حکیم پرنٹنگ کمپلیکس، مدینہ منورہ، مطبوعہ 1419 ہجری کے صفحہ نمبر 506 پر تحریر فرماتے ہیں کہ چار مہینے ایسے ہیں جو حرمت والے ہیں: (1) رجب، (2) ذوالقعدہ، (3) ذوالحجہ اور (4) محرم۔ شوال قمری سال کے دسویں مہینے کا نام ہے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ربانی ہے: ’’پس (اے مشرکو!) تم ملک میں 4 مہینے تک چل پھر لو‘‘۔یہاں 9 ہجری کا ذکر ہے جس میں 4 مہینوں کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ عرب اپنے ملک کے اندر بغیر کسی قسم کے حملے کے خوف کے چل پھر سکتے تھے، بعض مفسرین کے نزدیک شوّال بھی حرمت والے مہینوں میں سے ہے، حدیث کے مطابق شوال حج کے مہینوں میں سے ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج، باب 33، 37)
اسلام سے پہلے عرب شوّال کے مہینے کو شادیوں کیلئے موزوں نہیں سمجھتے تھے حالانکہ یہ خیال غلط ہے، حضور اکرمﷺ نے حضرت عائشہؓ سے شوّال میں ہی شادی کی تھی۔ (الترمذی، کتاب النکاح، باب 10)
اس مہینے کی اسلام میں بڑی فضیلت ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور ان کے ساتھ 6 روزے شوّال کے بھی رکھے، وہ گویا’’ صائم الدھر‘‘ (یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والا) ہے۔ (مسلم، کتاب الصیام، حدیث 203)
اردو دائرہ معارف اسلامیہ (جلد 11) کا انگریز مقالہ نگار A.J. WENSINCK صفحہ نمبر 816 پر رقمطراز ہے: ’’ان چھوٹے دنوں کو ’’چھوٹے تہوار‘‘ (العید الاصغر) میں شامل ہونے کی مقدس حیثیت حاصل ہے، شوال المکرم ہے۔ یعنی شوّال کا مہینہ قابل احترام ہے۔‘‘ سرخیل علماء و عارفین حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’غنیۃ الطالبین‘ میں اس مہینے کی بڑی فضیلت تحریر فرمائی ہے۔ حضرت ابو ایوبؓ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے بعد ماہ شوّال میں چھ نفلی روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا۔ (بحوالہ صحیح مسلم)۔
رسالہ فضائل الشہود میں لکھا ہے کہ ماہ شوّال میں نوافل پڑھنے کا بھی بہت ثواب ہے، نوافل کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد زیادہ سورہ اخلاص اور سلام پھیرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بے حساب ثواب ہے، اگر رمضان المبارک کے کوئی روزے خدانخواستہ رہ جائیں تو یہ روزے قضا ادا کرنے کے بعد ہی شوال کے چھ مسنون روزے رکھے جائیں، نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ شوّال کی پہلی رات فرشتے نازل ہو کر آواز دیتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ کے بندو! تمہیں خوشخبری ہوکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس لیے بخش دیا کہ تم نے رمضان کے روزے رکھے۔
جب رمضان ختم ہوتا اور یکم شوال ہوتا تو روز عید نبی اکرم ﷺ غسل فرماتے اور صاف اور اجلا لباس زیب تن فرماتے، عیدگاہ روانگی سے قبل چند کھجوریں تناوّل فرماتے، جن کی تعداد طاق ہوتی، آپﷺ عیدگاہ تک پیدل تشریف لے جاتے، عیدگاہ جس راستے سے تشریف لے جاتے واپسی پر راستہ تبدیل فرماتے، عیدوں پر کثرت سے تکبیروں کا حکم فرماتے، راستے میں چلتے وقت آہستہ تکبیر فرماتے، حضور اکرم ﷺ مسجد نبوی کے باہر میدان میں تشریف لے آتے جو عید گاہ تھی، نبی اکرم ﷺ نماز عیدالفطر سے قبل فطرانہ کی رقم ادا کرنے کا حکم صادر فرماتے۔
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی عالم دین ہیں، 25 سال سے مختلف جرائد کیلئے اسلامی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔