اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ چند برسوں میں بہت سے ایسے سیاسی فیصلے کیے جن کا انہیں فوری خمیازہ بھگتنا پڑا، حتیٰ کہ اقتدار سے ہاتھ دھو کر ایسی اپوزیشن بننا پڑا جو پارلیمانی سسٹم سے ہی باہر ہو گئی۔
مقبولیت کی بلندی کے خمار نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے ایسے فیصلے کروائے جس پر ان کی جماعت کو پچھتاوا بھی ہے مگر وقت گزرنے اور سیاسی نقصانات اٹھانے کے بعد تحریک انصاف نےکچھ بہتر سیاسی کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے، گیارہ اپریل 2022 کو قومی اسمبلی سے استعفے دینے والی جماعت سمجھتی رہی کہ یہ فیصلہ اتنا دباؤ بڑھائے گا کہ پارلیمان کا چلنا نا ممکن ہو جائے گا مگر نہ صرف ان کا یہ دعویٰ غلط نکلا بلکہ ان سے حکومت چھیننے والی اتحادی جماعتوں کیلئے میدان خالی چھوڑ دیا گیا، پھر ایک کے بعد ایک ایسے قوانین بنے اور آئینی تقرریاں ہوئیں جنہیں کسی اپوزیشن کی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔
الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیئرمین نیب کی وہ تقرریاں تھیں جن میں لیڈر آف اپوزیشن کا متفق ہونا ضروری تھا اور ایسے میں تحریک انصاف کے منحرف رکن راجا ریاض کے پاس بطور اپوزیشن لیڈر وہ طاقت آ گئی جو درحقیقت عمران خان یا ان کی جماعت کے کسی اہم رہنما کے پاس ہونی چاہیے تھی، جماعت میں اختلاف رائے کے باوجود پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیاں تحلیل کرنے والی سابق حکمران جماعت کو بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ قومی اسمبلی کا میدان چھوڑنا اور پنجاب میں اپنے ہاتھ کاٹ کر حریفوں کے حوالے کر دینا ایک سیاسی بلنڈر سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
جب احساس ہونا شروع ہوا تو تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپسی پر یوٹرن لیا اور عدالتوں کے ذریعے استعفوں کی واپسی کیلئے کوششیں کیں مگر حکمران اتحاد نے یہ اقدام تا حال کامیاب نہ ہونے دیا، چند ماہ قبل تک حکومتی اتحاد سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کو پارلیمان میں واپسی کیلئے قائل کرتا رہا مگر پی ٹی آئی نہیں مانی مگر اب اسی حکمران اتحا د کے فیصلے کے باعث تحریک انصاف کے ارکین عدالتی فیصلے ہاتھوں میں تھامے پارلیمنٹ کے گیٹ سے ناکام واپس لوٹ جاتے ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں نشستیں خالی ہونے پر ایسا دباؤ بنے گا کہ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کا چلنا بھی مشکل ہو جائے گا اور ملک بھر میں عام انتخابات کرانے پڑ جائیں گے مگر یہ اندازہ بھی غلط نکلا، نا صرف قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیاں قائم دائم ہیں بلکہ 90 روز کی آئینی مدت گزرنے کے باوجود پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
اس بات پر تو سبھی متفق ہیں کہ ملک میں عام انتخابات ایک ساتھ ایک ہی روز ہونے چاہئیں مگر اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ یہ انتخاب ہونگے کب؟ تحریک انصاف تمام اسمبلیوں کی فوری تحلیل کا مطالبہ کرتے ہوئے جولائی کے وسط تک انتخابات چاہتی ہے جبکہ حکومتی اتحاد ستمبر سے اکتوبر کے درمیان انتخابات کرانے پر مصر ہے، بظاہر تو یہ چند ہفتوں کا فرق ہے مگر اس پر ڈیڈ لاک اس لیے ہے کہ تحریک انصاف کی بات مانی جائے تو اسمبلیاں 14 مئی سے قبل توڑنا ہوں گی لیکن اگر حکومتی اتحاد کی تجویز کو قبول کیا جائے تو اسمبلیاں توڑنے اور انتخابات کرانے کا معاملہ چند ماہ کیلئے ٹل جائے گا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے فیصلے کی صورت میں لٹکتی تلوار بھی ہٹ جائیگی۔
اسی دوران حکومت ایک ایسی قانون سازی شروع کر چکی ہے جس کے تحت عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار صدر مملکت سے واپس لے کر الیکشن کمیشن کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس میں گزشتہ روز الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 میں ترمیم کی منظوری دی جا چکی ہے، اس ترمیمی بل کو کابینہ کے آئندہ اجلاس میں منظور کرایا جائے گا جس کے بعد اسے پارلیمان سے منظور کرایا جائے گا، بعض ناقدین اس اقدام کوعام انتخابات کی تاریخ کو اکتوبر سے بھی آگے لے جانے کی راہ ہموار کرنے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو بھی اب پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بروقت انتخابات کے انعقاد سے زیادہ پریشانی اس بات پر ہے کہ ملک میں عام انتخابات کا معاملہ کہیں دور ہی نہ چلا جائے۔
پی ٹی آئی قیادت کی دانشمندی سے زیادہ اس کی قسمت نے اس کا ساتھ دیا، سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کے نیتجے میں بننے والی صورتحال نے حکومت کو تحریک انصاف کیساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے پر مجبور کیا، اگرچہ حکومت یہ طے کر چکی ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور تحریک انصاف کا مطالبہ تسلیم کرنا اس کے لیے گھاٹے کا سودا ہے مگر اس صورتحال میں تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی کیلئے ایسا ماحول بن چکا ہے جس میں تحریک انصاف کیلئے فیس سیونگ اور حکومتی اتحاد کیلئے اسمبلی کی مدت پوری کرنا اور ایک ساتھ انتخابات کی خواہش پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
مذاکراتی کمیٹی کے تیسرے دور کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف ایک ہی روز تمام اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے تیار ہے مگر اس کیلئے شرط ہے کہ اسمبلیاں 14 مئی سے قبل تحلیل کر دی جائیں اور 60 روز کے اندر تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیںو چونکہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے 90 روز کی آئینی مدت گزر چکی ہے تو دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کر کے اس عمل کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے، چونکہ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی سے باہر ہونے کے باعث دو تہائی اکثریت موجود نہیں ہے تو تحریک انصاف کے ارکین کو پارلیمان میں واپس لایا جائے جس کے لیے وہ تیار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف انتخابی تاریخ کے معاملے پر اگر کچھ نرمی دکھائے تو قومی اسمبلی میں واپسی کے بعد وہ آئندہ عام انتخابات میں وفاق میں نگران سیٹ اپ لانے کیلئے کردار ادا کر سکے گی اور پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں سٹیک ہولڈر بنانے کے بعد اسمبلی کی مدت پوری کرنے کا حکومتی خواب آسانی سے پورا ہو سکے گا، شہر اقتدار میں ایسے آپشنز پر بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ بات چیت آگے بڑھنے کی صورت میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں انتخابات سے قبل نئے نگران سیٹ اپس قائم کرنے کے آپشنز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی سپریم کورٹ کے چار اپریل کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کر دی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ 14 مئی کو انتخابات کرانے کا عدالتی حکم واپس لیا جائے، ایک ایسی فضا قائم کرنا اب زیادہ مشکل نہیں ہے جس میں سب کیلئے بہتر اور قابل قبول صورتحال بن جائے۔