چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز

Published On 06 August,2023 05:15 pm

لاہور (دنیا انویسٹی گیشن سیل) سیاست میں آنے سے قبل چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی بنیادی وجہ شہرت 1992 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کا کپتان ہونا اور شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانا تھا، 1992 میں چیئرمین پی ٹی آئی کو ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔

سابق وزیر اعظم نے لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کی بنیاد اپریل 1991 میں رکھی اور یہ ہسپتال 1994 میں عوام کیلئے کھولا گیا، 2006 اور 2010 کے سیلابوں نے پاکستان کی عوام کو بے حال کیا تو چیئرمین پی ٹی آئی کی فاؤنڈیشن نے بدحال لوگوں کو سہارا دیا، 2018 کے عام انتخابات میں کامیاب ہو کر پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (ق)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کی حمایت حاصل کر کے قومی اسمبلی کے 176 ووٹ لیکر وزیراعظم منتخب ہوئے ان کے مد مقابل شہباز شریف 96 ووٹ لے سکے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔

چیئرمین تحریک انصاف نے مجموعی طور پر 5 عالمی کرکٹ کپ میں حصہ لیا جو 1975، 1979، 1983، 1987 اور 1992 میں منعقد ہوئے، 1992 کے ورلڈ کپ کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی اور اس کے بعد سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا، سابق وزیر اعظم نے پاکستان تحریک انصاف 25 اپریل 1996 کو لاہور میں قائم کی، تحریک انصاف نے ملک میں خرابیوں کو دور کرنے کیلئے ایک حل پیش کیا جس میں آزاد عدلیہ، آزاد الیکشن کمیشن اور آزاد احتساب بیورو کا تصور شامل تھا، 1997 کے انتخاب میں چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے بھرپور انتخابی مہم چلائی گئی تاہم وہ ملک بھر میں اپنی جماعت کے بینر تلے ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکے۔

سابق وزیر اعظم کی اس سیاسی ناکامی کے بعد ان کے بہت سے ساتھی پس منظر میں چلے گئے تاہم انہوں نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا، 1997 کے انتخابات میں چیئرمین تحریک انصاف ایک ساتھ قومی اسمبلی کی سات نشستوں، این اے 11، این اے 18، این اے 21، این اے 35، این اے 53، این اے 94 اور این اے 95 سے پاکستان تحریک انصاف کے بینر تلے کھڑے ہوئے لیکن وہ کسی بھی نشست سے کامیابی حاصل نہ کر سکے، 12 اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرائی تو چیئرمین تحریک انصاف نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ریفرینڈم میں ان کا ساتھ دیا۔

2002 کے انتخابات میں چیئرمین تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کے پی 5 اور کے پی 47 جبکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں این اے 29، این اے 71 اور این اے 122 سے الیکشن لڑا، ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین صرف اے این 71 میانوالی کی نشست سے ہی کامیاب ہوئے جبکہ دیگر تمام نشستوں سے انہیں شکست ہوئی، سابق وزیر اعظم کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 2002 کے انتخابات میں محض 0.8 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

2008 کے عام انتخابات میں چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی جماعت نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان  کیا، 30 اکتوبر 2011 کو مینار پاکستان لاہور میں ہونے والے جلسہ عام نے پاکستان تحریک انصاف کو نئی شناخت دی اور پی ٹی آئی شہرت کی بلندیوں تک پہنچی، 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف دوٹوں کے اعتبار سے ملک کی دوسری بڑی اور قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری، 2013 کے عام انتخابات میں چیئرمین تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی چار نشستوں این اے 1، این اے 56، این اے 71 اور این اے 122 سے الیکشن لڑا جن میں سے این اے 122 سے انہیں مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق سے شکست ہوئی جبکہ دیگر تین نشستوں سے کامیاب ہوئے، 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج کیا اور اسلام آباد ڈی چوک میں 126 دن کا دھرنا بھی دیا۔

2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں چیئرمین تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 35، این اے 53، این اے 95، این اے 131 اور این اے 243 سے الیکشن لڑا اور تمام ہی نشستوں سے کامیابی حاصل کی، 18 اگست 2018 کو چیئرمین پی ٹی آئی نے پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا، 8 مارچ 2022 کو سابق وزیر اعظم کیخلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحاد جماعتوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی۔

27 مارچ 2022 کو چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں جلسے کے دوران سائفر لہرایا گیا جس میں تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی سازش ہونے کا دعویٰ کیا گیا، 9 اپریل 2022 کو سابق وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف تین سال سات ماہ 23 روز تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم رہے۔

16 اکتوبر 2022 کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں چیئرمین پی ٹی آئی نے 7 میں سے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، 3 نومبر 2022 کو پی ڈی ایم اتحادی حکومت مخالف لانگ مارچ میں چیئرمین پی ٹی آئی پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ زخمی ہوئے، 14 مارچ 2023 کو عدالت کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کیلئے پولیس نے زمان پارک میں آپریشن کیا، اس دوران 8 گھنٹے تک گھمسان کی جنگ رہی، پولیس اور کارکنوں میں جھڑپوں سے کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے، ان جھڑپوں کے دوران کارکنان کی جانب سے پولیس پر پٹرول بم بھی پھینکے گئے تاہم چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری نہ ہو سکی۔

9 مئی 2023 کو چیئرمین تحریک انصاف کو رینجرز نے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا، اس گرفتاری پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے حساس تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا جس پر پنجاب اور بلوچستان میں رینجرز کو طلب کیا گیا جبکہ پنجاب میں 2 دن اور خیبرپختونخوا میں 30 روز کیلئے دفعہ 144 نافذ کی گئی، 12 مئی 2023 کو سپریم کورٹ کی جانب سے چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا گیا۔

گزشہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال کی سزا سناتے ہوئے 5 سال کیلئے نا اہل قرار دے دیا، عدالت کی جانب سے چیئرمین تحریک انصاف کو ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا جبکہ جرمانہ نہ دینے کی صورت میں مزید 6 ماہ قید ہو گی۔