لاہور: (زاہد عابد) قوم پر احسان کرنے والے سیاستدانوں کی آج کی بات یہی ہے کہ ہم نے ریاست پر سیاست قربان کر دی، مشکل فیصلے کر کے ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔
جناب ریاست کیا ہوتی ہے؟ ریاست وہ ماں ہوتی ہے جو تپتی دھوپ میں بارش میں، آندھی میں طوفان میں چٹان کی طرح بچوں کے لئے ڈٹ جاتی ہے لیکن اس ریاست میں اب عام آدمی کا جینا مشکل تر ہو چکا ہے۔
آپ نے سستے آٹے کے لئے اپنے کپڑے تو نہیں بیچے لیکن مہنگے آٹے، چینی، پٹرول نے عوام کی دھوتی ضرور اتار دی ہے، جناب اسوقت صرف ریاست ہی بچی ہے لیکن یہ عام آدمی کے خوابوں، خون اور ارمانوں کی قیمت پر بچی ہے، عام آدمی نے تو ماں جیسی ریاست کے لئے اپنا سب کچھ گروی رکھ دیا اور پھر بھی دل ہے پاکستانی، لیکن اب یہ سوال ہر آدمی کی زبان پر ہے کہ ایلیٹ اور اشرافیہ نے کیا دیا ہے اس ریاست کو؟
کیا اس دھرتی نے ایک بھی حضرت عثمان غنی کی جوتی کی دھول برابر بیٹا پیدا نہیں کیا جو کہے یہ پڑا میرا بلاول ہاؤس، یہ پڑا میرا جاتی امرا، یہ رہے میرے بنی گالا کے کاغذات، ان سب کو بیچ دو اور غریب کو کچھ دے دو، یہ رہی میری شوگر مل، جہاں سے ضرورت مند چینی لے جائیں، یہ رہی میری فلور ملز جس کے بچے بھوکے ہیں وہ آئے اور آٹا لے جائے۔
ہے کوئی جو ضرورت سے زیادہ تنخواہ لینے سے معزرت کر لے، ہے کوئی اعلیٰ کرسی پر بیٹھا جو کہے کہ میرا دادا پڑدادا میرے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں مجھے تنخواہ پنشن نہ دی جائے، یہ کر کے دیکھو، بڑے محلوں اور بھرے بنک بیلنس کے مزے سے زیادہ مزے کی نیند آئے گی، سرخرو ہو جاؤ گے ورنہ ان محلوں، شوگر ملوں، فلور ملوں والے کروفر کے عہدوں والے نہ جانے کتنے لوگ ہیں جن کے نام بھی کسی کو یاد نہیں۔