کراچی: (دنیا نیوز) سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ کیس کے تمام مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ اور اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دے دیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں سانحہ بلدیہ کیس میں حماد صدیقی سمیت دیگر مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری پر سماعت ہوئی، آئی جی سندھ پولیس رفعت مختار عدالت میں پیش ہوئے اور مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ پیش کی۔
آئی جی سندھ کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 50 ہزار 58 ملزمان مفرور ہیں، لاڑکانہ ڈویژن میں مفرور ملزمان کی تعداد 23 ہزار سے زیادہ ہے۔
عدالت نے مفرور ملزمان کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ مفرور ملزمان کو نہ پکڑنا بھی جرم ہے۔
عدالت نے آئی جی سندھ کو مفرور ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دے دیا اور تمام مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ اور اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت صوبے میں کوئی سیاسی حکومت نہیں ہے، ملزمان کی گرفتاری پر کوئی ایم این اے ایم پی اے مداخلت نہیں کرے گا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اتنی بڑی تعداد میں مفرور ملزمان کی وجہ سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، صرف لاڑکانہ ڈویژن میں 23 ہزار مفرور ملزمان ہیں تو ڈی آئی جی لاڑکانہ کیا کررہے ہیں؟
آئی جی سندھ نے مؤقف پیش کیا کہ میں نے 40 دن پہلے چارج لیا ہے، ڈی آئی جی لاڑکانہ کو بھی حال ہی میں تعینات کیا گیا ہے۔
عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوئی ایس او پی، کوئی میکنزم تو ہوگا، مفرور ملزمان کو گرفتار کرنا آپ کی کی ذمہ داری ہے، ہم کسی اور آئی جی کا انتظار نہیں کریں گے۔
،جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ بیشتر کیسز میں مفرور ملزمان کے نام، پتے، ولدیت درست درج نہیں ہوتی ہے، منشیات کے کیسز میں تو صرف ملزم کا نام ہوتا ہے، وہی اگر انتظامی معاملات بہتر کر لیے جائیں تو جرائم میں کمی آسکتی ہے، لاڑکانہ ڈویژن میں اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کا مفرور ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ قبائلی اور دور دراز علاقے ہیں جس کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان مفرور ہیں۔
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں نگران حکومت سے بھی توقع ہے کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری میں معاونت کرے گی، آئی جی سندھ نے کہا کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔
عدالت نے صوبے بھر کے مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹس اور پاسپورٹ بلاک کرکے رپورٹ طلب کر لی جبکہ چیئرمین نادرا، وزارت داخلہ و خارجہ، اور سٹیٹ بینک سے 23 اکتوبر تک رپورٹ طلب کر لی۔
نادرا کی رپورٹ
نادرا نے کیس کی سماعت کے دوران ہی عدالت میں مفرور ملزم حماد، خرم نثار اور تقی حیدر شاہ سے متعلق رپورٹ جمع کرائی اور بتایا کہ تینوں مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ بلاک کردئیے گئے ہیں۔
سٹیٹ بینک کی رپورٹ
سٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تینوں مفرور ملزمان کے بینک اکاؤنٹس بلاک کرنے کے لیے تمام بینکس کو سرکلر جاری کردیا ہے۔
ڈائریکٹر وزارت خارجہ
ڈائریکٹر وزارت خارجہ کراچی کیمپ آفس نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ تینوں مفرور ملزمان کے پاسپورٹ بلاک کرنے کے لیے وزارت داخلہ مجاز اتھارٹی ہے۔
عدالت نے وزارت خارجہ کی جانب سے تینوں مفرور ملزمان کے پاکستانی پاسپورٹ بلاک نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت تک تینوں مفرور ملزمان کے پاسپورٹ بلاک کر کے رپورٹ پیش کریں ورنہ آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوں۔
وزارت خارجہ کے نمائندے نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ ملزم تقی حیدر شاہ دبئی میں ہے اس سلسلے میں وزارت خارجہ یو اے ای حکام سے رابطے میں ہے، 27 ستمبر کو یو اے ای کے اعتراضات ختم کردئیے ہیں اب یو اے ای کے جواب کا انتظار ہے، تقی حیدر شاہ کی دوہری شہریت سے متعلق معلومات نہیں ہیں۔
نمائندہ وزارت خارجہ نے بتایا کہ پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث ملزم خرم نثار سوئیڈیش نیشنل ہے، ہم نے ملزم سے متعلق سوئیڈش حکومت سے قانونی معاونت مانگی ہے۔
بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔