اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے سائفر کے آنے کے بعد کی ٹائم لائن عدالت میں پیش کر دی۔
وکیل سلمان صفدر کے مطابق 7 مارچ کو سائفر دفتر خارجہ کو موصول ہوتا ہے، 8 مارچ کو سابق وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی، 31 مارچ 2022ء کو سائفر قومی سلامتی کے سامنے رکھا گیا، 9 اپریل کو وفاقی کابینہ نے سلیکٹڈ افراد کیلئے سائفر کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کی منظوری دی۔
سلمان صفدر کے مطابق ان سلیکٹڈ آرڈیننس میں چیف جسٹس، آرمی چیف اور سپیکر قومی اسمبلی بھی شامل تھے، ان کا کیس ہے کہ گیارہ اپریل 2022ء تک سائفر چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس رہا، 11 اپریل 2022ء کو شہباز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کا معاملہ زیر بحث آیا، شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے 5 ماہ بعد کابینہ نے ایف آئی اے کو سائفر کی گمشدگی کا معاملہ بھجوایا، 5 ماہ تک شہباز شریف کے پاس سائفر رہا لیکن شہباز شریف اس کیس میں ملزم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف ٹرائل روکنے اور اخراج مقدمہ کی درخواستیں یکجا
سلمان صفدر ننے کہا کہ اگر سائفر شہباز شریف کے پاس نہیں تھا تو وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیسے گئے؟ کیا سائفر کے بغیر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا؟
بیرسٹر سلمان صفدر نے سائفر کے معاملے پر ہونیوالے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ بھی پڑھ کر سنایا، جس میں قومی سلامتی کمیٹی نے سائفر میسج کو ملکی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا، قومی سلامتی کمیٹی میں غیر ملکی سفیر کو ڈیمارش دینے کا بھی فیصلہ ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ کے سامنے تھے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے صرف پریس ریلیز تھی، منٹس نہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کو مقدمے میں ملزم نامزد کیا گیا، مقدمے میں اعظم خان کا کردار بھی مختص کیا گیا، پراسیکیوشن کے مطابق اعظم خان نے سائفر کو ٹوئسٹ کیا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے اعظم کی گمشدگی کی ایف آئی آر عدالت میں پیش کردی، انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق ایسے بیان کی کوئی حیثیت نہیں جو غیر قانونی حراست کے دوران دیا گیا ہو، ریکارڈ کی دیکھ بھال پرنسپل سیکرٹری کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ الزام ہے کہ سابق وزیر اعظم سائفر کو اپنے ساتھ لے گئے، ایسی صورتحال میں تو اس مقدمے کا مدعی اعظم خان کو ہونا چاہئے تھا، بیرسٹر سلمان صفدر نے درخواست ضمانت کے دفاع میں مختلف عدالتی حوالے بھی پیش کر دئیے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کی جانب سے دلائل میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کیخلاف ہونیوالے مقدمے کا بھی حوالہ دیا گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ جیسے ہی دلائل مکمل ہوں گے دو سے تین دن میں درخواست ضمانت پر فیصلہ سنا دیں گے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، تو نہیں چاہتے کہ پہلی بار ہی کوئی غلطی ہو۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے آج ہی درخواست ضمانت پر دلائل مکمل کر کے فیصلہ جاری کرنے کی استدعا کر دی۔