اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اکیس اکتوبر پاکستانی سیاست کیلئے اہم دن ہوگا، میاں نواز شریف چار سال بعد وطن واپس آنے کیلئے دبئی پہنچ چکے ہیں، ان کے پاکستان پہنچے سے قبل ہی سیاسی منظر نامہ کافی حد تک واضح ہو چکا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے وطن پہنچنے پر گرفتاری سے بچنے کیلئے نہ صرف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر ہوتے ہی سماعت کیلئے مقرر ہوگئی اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔ میاں نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ عدالتوں نے کئی ملزمان کو سرنڈر کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے حفاظتی ضمانت دی۔
ماضی میں جب ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں میاں نواز شریف کو سزا سنائی گئی تو وہ برطانیہ میں تھے مگر عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے سرنڈر کیا، وطن واپس آ کر گرفتاری دی، اُس وقت عدالت کی جانب سے دی گئی رعایت کا نواز شریف نے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا، انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچ کر عدالت کے روبر و پیش ہونا چاہتے ہیں اس لئے نواز شریف کو حفاظتی ضمانت دی جائے، کیا میاں نواز شریف کو حفاظتی ضمانت مل جائے گی؟ اس کا اندازہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں نیب کا مؤقف سامنے آنے کے بعد بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
میاں نواز شریف آئندہ انتخابات میں چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے امیدوار کے طور پر میدان میں اُتر رہے ہیں، مگر انہیں تین مختلف کیسز میں نا اہل قرار دیا گیا تھا، ایک نا اہلی تا حیات تھی جبکہ باقی دس دس سال کی نا اہلی کی سزائیں تھیں، تاحیات نا اہلی کی سزا کیپٹل ایف زیڈ ای کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے سنائی گئی تھی جبکہ باقی دو سزائیں احتساب عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی تھیں، پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی کو ختم کرتے ہوئے پانچ سال کی نا اہلی قرار دے دیا گیا۔
دوسری جانب دو فوجداری کیسز ٹرائل کورٹ سے سزاؤں کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے، کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کو تاحیات قرار دیئے جانے کے بعد سادہ قانون سازی سابق وزیر اعظم کی نا اہلی ختم نہیں کر سکتی جبکہ (ن) لیگ کے حامی قانونی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی نا اہلی کے خاتمے کیلئے پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی سادہ قانون سازی کافی ہے، کچھ قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ معاملہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ دوبارہ عدالت عظمیٰ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
آرٹیکل 184 تھری کے تحت ایک آئینی درخواست کے ذریعے نا اہلی کا تنازع اپنی جگہ مگر اس وقت میاں نواز شریف دو فوجداری کیسز میں بھی سزا یافتہ مجرم ہیں، ان کیسز میں سزاؤں کے خاتمے کیلئے سابق وزیر اعظم میرٹس پر کیس لڑنے کیلئے میدان میں اُتر رہے ہیں، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں جج محمد بشیر نے انہیں دس سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کے ساتھ عوامی عہدے کیلئے نااہلی کی سزا سنائی تھی جبکہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سات سال قید اور عوامی عہدے کیلئے دس سال نااہلی کی سزا سنائی تھی۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا معطل کی تھی جبکہ العزیزیہ کیس میں ان کی سزا برقرار تھی، سابق وزیر اعظم کی اپیلیں زیر سماعت تھیں، اسی دوران وہ میڈیکل گراؤنڈز پر ضمانت لے کر بیرون ملک علاج کیلئے گئے، عدالت میں دی گئی گارنٹی کے باوجود نواز شریف مقررہ مدت میں واپس نہیں آئے تو عدم پیروی کی بنیاد پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے جون 2021ء میں نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس کیس میں اپیلیں خارج کرتے ہوئے انہیں مفرور قرار دے دیا تھا، مگر عدالت نے ساتھ ہی یہ قانونی سہولت بھی دے دی کہ مجرم اگر سرنڈر کر دے تو اس کو اپیلوں کی پیروی کا حق مل جائے گا۔
اگلے روز میاں نواز شریف کے کیس کی پہلی سماعت پر نیب، جس نے چند سال قبل ان کے خلاف کرپشن مقدمات قائم کئے، اسی قومی احتساب بیورو کی قانونی ٹیم کی جانب سے انہیں حفاظتی ضمانت دینے کے استدعا پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، یہ بات بھی بہت دلچسپ تھی کہ نیب پراسیکیوٹر بغیر کسی عدالتی نوٹس اور پیشگی اطلاع کے کمرہ عدالت میں موجود تھے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کیا اور کہا کہ آج آپ کو ان کی حفاظتی ضمانت پر اعتراض نہیں کل آپ کہیں گے کہ سزا کا فیصلہ ہی کالعدم قرار دے دیا جائے، ایسا کریں کہ چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر بتا دیں تاکہ اپیلوں پر فیصلہ بھی کر دیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ چیئرمین نیب ملک سے باہر ہیں جب اپیلیں سماعت کیلئے مقرر ہوں گی تو ہدایات لے کر دلائل دیں گے، عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ کی حکمت عملی آنے والے قانونی اور سیاسی منظر نامے کو واضح کر رہی ہے، ماہرین کے مطابق استغاثہ یعنی نیب کی جانب سے اعتراض نہ کرنے پر قانونی تقاضا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو بآسانی حفاظتی ضمانت مل جائے گی، یوں ان سوالوں کا جواب سابق وزیر اعظم کے وطن پہنچے سے پہلے ہی مل جائے گا کہ ایئرپورٹ پہنچنے پر ان کے ساتھ کیا سلوک ہو تا ہے، حفاظتی ضمانت ملتے ہی میاں نواز شریف کی جانب سے مستقل ضمانت اور سزا معطلی کی درخواستیں دائر کی جائیں گی، اگر قانونی ریلیف ملتا ہے تو سابق وزیر اعظم کو جیل جائے بغیر آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا موقع مل جائے گا۔
میاں نواز شریف کی جانب سے برطانیہ سے سعودی عرب اڑان بھرنے کے باوجود قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ ابھی بھی ان کی وطن واپسی پر شکوک و شبہات ہیں، تاہم عدالت عالیہ اسلام آباد سے رجوع کرنے کے بعد یہ تمام قیاس آرائیاں 21 اکتوبر سے قبل ہی دم توڑ چکی ہیں، آئینی اور قانونی عدالت میں کامیابی حاصل کرنا یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے مگر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند میاں نواز شریف کیلئے عوام کی عدالت میں پیش ہو کر سرخرو ہونا اس سے زیادہ بڑا چیلنج ہوگا، جب ماضی قریب میں (ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کے دوران ملک کو بدترین مہنگائی اور خراب معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور تا حال (ن) لیگ کے پاس کوئی تگڑا سیاسی بیانیہ بھی نہیں ہے۔