اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی سماعت کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان بھی بنچ میں شامل تھے۔
کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست پر گزشتہ سماعت کب ہوئی تھی جس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ آخری سماعت 13 جون 2022 کو ہوئی تھی۔
عدالت میں بھی جمہوریت آرہی ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس طارق، جسٹس اعجازالاحسن نے بنچ میں شمولیت سے انکار کیا، میں نے کسی کو بنچ سے نہیں ہٹایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہوتی ہے اتفاق رائے یا جمہوری طریقے سے کمیٹی میں چلیں، موبائل اٹھا کر صحافی بننے والوں کو سوچنا چاہیے پریکٹس اینڈ پروسیجر پر فیصلہ آچکا ہے، جمہوریت کی جانب جا رہے ہیں عدالت میں بھی جمہوریت آرہی ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ جمہوریت اس وقت مشکل میں ہے۔
شوکت عزیزکی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض
وفاقی حکومت کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت درخواست کی مخالفت کرے گی؟
جس پر وفاقی حکومت نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔
میرا اصول ہے جس پر الزام لگاؤ اس کو بھی سنو: جسٹس قاضی فائز
حامد خان نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر عدالت کو سنایا اور بتایا کہ ان کے سائل کو کہا گیا کہ اگر آپ نے ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ سنا دیا تو آپ کو چیف جسٹس بنا دیا جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے حامد خان کو ٹوکتے ہوئے کہا اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اس کو آپ کو پارٹی بنانا چاہیے، اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ ہم انہیں بھی سنیں، ہو سکتا ہے وہ آکر مان لے اور ہو سکتا ہے وہ آکر اپنا کوئی مؤقف پیش کرے، میرا اصول ہے کہ جس پر الزام لگاؤ اس کو بھی سنو ہو سکتا ہے وہ الزامات کو تسلیم کر لے، اگر کسی شخص کو فریق نہیں بناتے تو اس شخص کا نام مت لیجیے گا۔
تباہی یہ ہے ہم شخصیات کو نہیں ادارے کو برا کہتے ہیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے کہا تباہی یہ ہے کہ ہم شخصیات کو برا نہیں کہتے اور ادارے کو برا کہتے ہیں، ادارے تو وہی رہتے ہیں، ادارے کو لوگ چلاتے ہیں، اداروں میں اچھے اور برے لوگ بھی ہوتے ہیں، کبھی کبھی عدالت میں کچھ بھی بول دیتے ہیں بعد میں فیصلہ لکھنے میں احتیاط کرتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا آپ کا الزام ایک شخص پر ہے یا ادارے پر؟ جس پر حامد خان نے کہا میں نے متفرق درخواست میں فیض حمید اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر کا گھر آنے کا ذکر کیا ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جب آپ کا الزام ایک فرد پر ہے تو اسے فریق تو بنائیں۔
سپریم کورٹ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو کیس میں فریق بنانے کے لیے ایک روز کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا؟
سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار سے خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔
سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔
شوکت صدیقی نے 2018 سے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے، شوکت عزیز صدیقی کی آئینی درخواست پر آخری سماعت 13 جون 2022 کو ہوئی تھی۔
انہوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔
100 فیصد انصاف کی توقع ہے: شوکت عزیز صدیقی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے 100 فیصد انصاف کی توقع ہے، ثبوت پہلے سے دیئے ہوئے ہیں، الزامات کی تردید نہ ہونا خود بہت بڑا ثبوت ہے۔