لاہور: (خاور نیازی) زمانۂ قدیم سے لے کر دور حاضر تک پیغام رسانی اور خبر رسانی کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ چلی آ رہی ہے، زمانۂ امن ہو یا حالات جنگ، پیغام رسانی یا خبر رسانی کا انسانی زندگی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ چلا آ رہا ہے۔
زمانۂ قدیم میں پیغام رسانی پا پیادہ کارندے کیا کرتے تھے جو ایک طویل مسافت پر محیط ہوا کرتی تھی، پھر انسان نے پیغام رسانی کیلئے جانوروں کی سواری کا سہارا ڈھونڈ نکالا تو یوں کچھ وقت کی بچت ہونے لگی۔
ریل کی ایجاد نے تو گویا لوگوں کو ایک عرصہ تک حیرت زدہ کئے رکھا کہ زمانۂ قدیم میں جب یہ سہولت نہ تھی نہ ہی ڈاک کا مربوط نظام تھا تو پھر شہر بشہر ضروری خبریں کیسے پہنچتی ہوں گی؟ جنگ کے موقعوں پر پیغام رسانی اور سامان حرب کیسے منتقل کیا جاتا ہوگا؟ فون، انٹرنیٹ، ٹیلی گرام اور پیغام رسانی کے دیگر جدید ذرائع کی عدم موجودگی میں اہم اور فوری رابطے کیسے ہوتے ہوں گے؟
زمانۂ قدیم میں تیز پیغام رسانی کا جو ذریعہ قدرت نے سب سے پہلے انسانی ذہن کو عطا کیا وہ ریل کی ایجاد جیسے جدید طریقہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ حیران کن تھا، اس دور میں انسان کے پاس حیوانی قوت کے سوا اور کوئی طاقت دستیاب نہ تھی، چنانچہ قدرت نے جس حیوان کو فوری انسانی پیغام رسانی کا ذریعہ بنایا وہ کبوتر تھا۔
پیغام رسائی کیلئے کبوتر ہی کیوں؟
کبوتر ایک ایسا پرندہ ہے جو تیز رفتاری کے ساتھ لمبی پرواز کر سکتا ہے، کبوتر کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اسے جہاں کہیں بھی چھوڑیں، وہ راستہ تلاش کر کے کمال مہارت سے اپنے ٹھکانے پر واپس پہنچ جاتا ہے،امریکی تحقیقی ادارے کو کچھ عرصہ پہلے ایک ٹاسک دیا گیا کہ زمانہ قدیم سے خبر رسانی کیلئے کبوتر کا انتخاب دیگر پرندوں کی موجودگی کے باوجود آخر کن وجوہات کی بنا پر کیا گیا؟۔
اس کمیٹی کے سامنے سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ کبوتر آخر اپنا راستہ کس طرح تلاش کرتے ہیں؟ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ کبوتر کی چونچ میں قدرت نے ایک خاص مقناطیسی طاقت رکھنے والا ایک چھوٹا سا نکتہ رکھا ہے جو کبوتر کو راستہ معلوم کرنے اور پھر واپس اپنے گھونسلے تک پہنچنے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، ایک اور رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ قدرت نے کچھ پرندوں کی آنکھوں میں ایسے مخصوص خلئے بنائے ہوئے ہیں جو ان کی راستہ تلاش کرنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔
کبوتر بطور پیغام رساں کب سے؟
کبوتروں کی پیغام رسانی کی تاریخ یوں تو کافی پرانی ہے تاہم کبوتروں کا جنگوں میں بطور پیغام رساں سب سے پہلے استعمال کا ذکر 43 قبل مسیح کے دوران ملتا ہے جب اس وقت کے شہنشاہ ڈیسیمس نے اطالوی شہر مودینہ پر حملہ کی اطلاع دینے کیلئے کبوتر کو بطور پیغام رساں استعمال کیا۔
تاریخ کے معلوم ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ کبوتروں کو پالنے اور ان کو بطور پیغام رساں استعمال کرنے کا ذکر سب سے پہلے 1000 قبل مسیح میں ملتا ہے، سوسائٹی آف امریکن ملٹری انجینئرز کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق کبوتروں کو پالنے کے رواج کے تانے بانے فراعین مصر کے پانچویں خاندان اور اسی دور کے یونان کے ساتھ جا کر ملتے ہیں۔
امریکی جریدے ’’سائنٹیفک امریکن‘‘ کے مطابق کبوتروں کے ذریعے پیغامات کی ترسیل کا سہرا مسلمانوں کے سر جاتا ہے، جب شام اور مصر، یورپ کے متواتر حملوں کی زد میں تھے تو 567 ہجری میں نورالدین زنگی نے پیغام رسانی کیلئے کبوتروں کی تربیت کا اہتمام کیا، اس کے بعد 1150ء میں بغداد کے شہنشاہ نے کبوتروں کو باقاعدہ تربیت دینے کے کام کو آگے بڑھایا جبکہ ایک اور تحقیقی مقالے کے مطابق 1180ء اور 1200ء کے دوران چنگیز خان نے کبوتروں کو پیغام رسانی کے استعمال کا رواج یورپ اور ایشیاء میں عام کیا۔
ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ فرانسیسی انقلاب کے دوران بھی کبوتروں کو پیغام رسانی کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے، ایک اور تحقیق کے مطابق جب فرانسیسی بادشاہ لوئی نہم مصر پر حملہ آور ہوا تو قاہرہ میں مصر کے بادشاہ کو کبوتر کے ذریعے مطلع کیا گیا تھا، بعد ازاں برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے مسلمانوں کے اس تصور کو آگے بڑھایا اور یہ سلسلہ پہلی جنگ عظیم تک جاری رہا، یہاں تک کہ فرانس کی فوج میں کبوتروں کی باقاعدہ ایک کور قائم تھی۔
1844ء میں سال ٹیلی گرام کی ایجاد کے بعد کبوتروں کا استعمال بتدریج کم ہوتا چلا گیا لیکن جنگوں کے دوران کبوتروں کو جاسوسی اور پیغام رسانی کیلئے ایک عرصہ تک استعمال کیا جاتا رہا ہے، بھارت واحد ملک ہے جہاں ابھی تک کبوتروں کو جاسوسی کیلئے سب سے زیادہ استعمال میں لایا جاتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں باقاعدہ طور پر 1952ء سے ایک کبوتر کوریئر سروس کام کر رہی تھی جسے 2002ء میں بند کر دیا گیا، اس سروس میں 800 کے لگ بھگ تربیت یافتہ کبوتر تھے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے بھارت کو تحفے میں دیئے تھے۔
ذکر دو تاریخی کبوتروں کا
امریکہ کے نیشنل آرکائیوز میں درج ایک واقعہ کے مطابق 3 اکتوبر 1918ء میں جنگ عظیم اوّل کے دوران جب جرمن اور امریکی فوجیں ایک دوسرے سے برسر پیکار تھیں، اس دوران اچانک امریکی فوج کے سپاہیوں نے غلطی سے اپنے ہی ساتھیوں پر فائرنگ شروع کر دی، دراصل امریکی کمان نے اپنے فوجیوں کو جو پیغام بھیجا وہ ان تک پہنچا ہی نہیں کیونکہ پیغام رساں کبوتر راستے میں جرمن فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
3 اکتوبر 1918ء صبح تین بجے امریکی فوجی کمان نے ’’چیر آمی‘‘ نامی ایک کبوتر کے پنجوں کے ساتھ اپنے برسر پیکار دستے کو ایک تحریری پیغام بھیجا کہ ’’ہم 4 /276 روڈ پر موجود ہیں اور ہمارا اپنا ہی توپ خانہ ہم پر گولیاں برسا رہا ہے، خدارا اسے روکا جائے‘‘۔ اس نازک صورتحال میں یہ کبوتر اس امریکی انفنٹری کیلئے امید کی آخری کرن تھی، امریکہ نے جب اس کبوترکو روانہ کیا تو راستے ہی میں یہ جرمن فوج کی اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بن گیا، یہ کبوتر زخمی حالت میں بھی پیغام امریکی انفنٹری کے دستے تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔
انفنٹری کے برسر پیکار دستے کو جیسے ہی یہ پیغام موصول ہوا اس نے فی الفور اپنے ساتھیوں پر فائرنگ روک دی اور یوں اس وفادار کبوتر کی فرض شناسی کی وجہ سے 200 امریکی فوجیوں کی جان بچ گئی، اس بہادری کی وجہ سے فرانسیسی حکومت نے اس کبوتر کو ’’ڈیکن میڈل‘‘ سے نوازا۔
خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے موقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔