اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملک میں سیاسی طوفان کے بعد گرد بیٹھنا شروع ہوگئی ہے، صورتحال کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ آئندہ حکومت کس کی ہوگی، جس الیکشن نے ملک کو غیر یقینی صورتحال سے نکالنا تھا اس کے نتائج نے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ ملک میں حکومت سنبھالنے کیلئے کوئی بھی تیار نظر نہیں آ رہا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کو ’’پاکستان کو نواز دو‘‘کے نعرے سے یوٹرن لینا پڑا، پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا، (ن) لیگ سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ اسے حکومت نہیں سنبھالنی چاہیے، پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو بھی ایک غیر رسمی دعوت دی گئی کہ اگر وہ حکومت بنانا چاہتے ہیں تو بنا لیں مگر ملک میں کسی ایک جماعت کے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ وہ تنہا حکومت بنا سکے۔
نہ پاکستان تحریک انصاف کسی کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہے نہ ہی (ن) لیگ یا پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھنا چاہتی ہیں، ایسے میں ایک ہی صورت دکھائی دیتی تھی کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر سادہ اکثریت بنائیں، کئی نشستوں کے بعد بالآخر منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت سازی پر اتفاق کر لیا، طے پا گیا کہ آصف علی زرداری صدر جبکہ شہباز شریف وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے، پاکستان پیپلز پارٹی اب بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کے فیصلے پر قائم ہے مگر وہ چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے گورنر کے عہدے لے گی۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت میں شمولیت کیلئے سندھ کی گورنرشپ اور چار وفاقی وزارتیں مانگ لی ہیں، پی ڈی ایم کے سابق سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے پرانے اتحادیوں سے ناراض ہو کر اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے کا اعلان کر چکے ہیں، مولانا فضل الرحمان کی ناراضگی پر یہی گمان کیا جا رہا تھا کہ وہ حکومت میں اپنا حصہ بڑھانے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں اور حکومتی اتحاد کا حصہ ہی بنیں گے، مگر اپنے غصے میں وہ اتنا آگے نکل گئے کہ اب انہیں انگیج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ملک کو درپیش معاشی چیلنجز اور منقسم عوامی مینڈیٹ کے باعث کمزور حکومت کی تشکیل سے خوفزدہ جماعتیں حکومت سازی سے جان چھڑاتی نظر آئیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اندر سے آوازیں اُٹھنے لگیں کہ موجودہ صورتحال میں صرف صوبائی حکومتیں سنبھالی جائیں اور وفاقی حکومت نہ بنائی جائے، ایسی صورتحال میں پاکستان مسلم لیگ( ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت سازی کے حوالے سے ٹال مٹول نے ملک کو ہیجانی کیفیت کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔
بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی’’ فِچ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں خبردار کر دیا کہ اگر پاکستان کی غیر یقینی سیاسی صورتحال برقرار رہی تو آئی ایم ایف پروگرام خطرے میں پڑ سکتا ہے، فچ ایجنسی نے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی کارکردگی بہتر رہی جبکہ مسلم لیگ( ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک مخلوط حکومت بنانے میں مصروف ہیں، نئی حکومت کو آتے ہی آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا ہے، مگر اس کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کا حصول ایک بڑا چیلنج ہوگا، غیر یقینی سیاسی صورتحال قرض پروگرام میں طوالت کا سبب بن سکتی ہے،جس کے بعد امدادی اداروں اور ممالک سے فنڈ میں تاخیر سے اصلاحات کا عمل متاثر ہوگا۔
آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ اقتدار کیلئے لڑنے والی سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد حکومت لینے سے ہچکچا رہی تھیں؟ حکومت بنتے ہی سب سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ واسطہ پڑنا ہے، پاکستان کو آئندہ ایک برس میں 22 ارب ڈالرز سے زائد کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو چھ ارب ڈالرز کے نئے آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن نہیں، اس پروگرام کو یقینی بنانے کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط ماننا ضروری ہے،اس کیلئے عالمی مالیاتی ادارے کو اربوں روپے کی سبسڈیز کم کرنے کی یقین دہانی کرانی ہے۔
حکومت اس وقت 1200 ارب روپے کی سبسڈیز دے رہی ہے، جن میں سے 975 ارب روپے پاور سیکٹر کی سبسڈی ہے، چنانچہ سب سے بڑا کٹ پاور سیکٹر کی سبسڈی پر لگے گا جس سے اس سال گرمیوں میں عوام کو مزید مہنگی بجلی خریدنا پڑے گی، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کے ٹارگٹ میں بھی تقریباً ڈیڑھ سو ار ب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے پٹرول کی قیمت مزید بڑھے گی، مہنگائی جو پہلے ہی رکنے کا نام نہیں لے رہی ان اقدامات کے باعث اس میں مزید اضافہ ہوگا۔
پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سمیت کئی اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی، ان اداروں سے ہزاروں ملازمتیں ختم کرنا ہوں گی، ایک ایسی حکومت جس میں شامل جماعتوں کو پہلے ہی 8 فروری کے انتخابات میں ایک بڑا دھچکا لگ چکا ہو اور وہ بیانیے کی جنگ میں بیک فٹ پر ہوں، ان کے غیر مقبول فیصلوں کے باعث عوام پرمزید بوجھ پڑنے جا رہا ہو تو ان سیاسی جماعتوں کو اس کی اور بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو واضح پیغام دیا گیا کہ اگر اس صورتحال میں وہ حکومت نہیں سنبھالتیں تو ملک کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ دار وہ ہوں گی، ملک کو اس ہیجانی کیفیت میں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی یہ بھی بتاتی نظر آئیں گی کہ ملک کو درپیش صورتحال کے باعث انہوں نے اپنی سیاست قربان کی اور حکومت بنائی، یہی بیانیہ اپریل 2022 ء میں بننے والی حکومت کے بعد بنایا گیا تھا مگر عوام نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے کیلئے ووٹ تو دے گی مگر خود کابینہ کا حصہ نہیں ہوگی، تاکہ اگلی مرتبہ عوام میں جائے تو یہ کہہ سکے کہ وہ غیر مقبول فیصلوں کا حصہ نہیں تھے، اس تمام تر مشکل صورتحال کے باوجود توقع کرنی چاہیے کہ نئی حکومت آنے کے بعد غیر یقینی صورتحال میں کسی حد تک کمی آئے گی اور ملک بحرانی کیفیت سے نکلے گا، حکومت سازی کا اعلان ہوتے ہی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کار وں نے سکھ کا سانس لیا اور گزشتہ روز انڈیکس میں ایک ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔