اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس میں آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کس قسم کے آئی جی ہیں، ان کو ہٹا دینا چاہیے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس محمدعلی مظہر پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے مگر ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟ اٹارنی جنرل صاحب! یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ان کو ہٹا دیا جانا چاہیے، 4 سال ہو گئے ہیں اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ کیا آپ کو 4 صدیاں چاہئیں؟
"کسی صحافی کو گولی مار دی جاتی ہے تو کسی کی پٹائی کی جاتی ہے"
انسپکٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی صاحب! آپ آئے کیوں ہیں یہاں؟ کیا آپ اپنا چہرہ دکھانے آئے ہیں؟ کسی صحافی کو گولی مار دی جاتی ہے، کسی کی گھر میں جا کر پٹائی کی جاتی ہے۔
اس موقع پر پریس ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور جیل میں ہیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ وہ کیوں جیل میں ہیں؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور پر سرکاری افسران کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے۔
"لگتا آئی جی ملزمان کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں"
جسٹس عرفان سعادت خان نے پوچھا کہ کیا ایف آئی آر میں ان افسران کا ذکر ہے جن کا وقار مجروح ہوا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ایف آئی آر میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا گیا۔
"اگر اب مائی لارڈ کہا تو آپ کو جرمانہ کروں گا"
سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد کے عدالتی سوالات کے جواب نا دینے پر چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر سوال کے جواب میں آپ مائی لارڈ، مائی لارڈ کہنے لگ جاتے ہیں، اگر اب مائی لارڈ کہا تو آپ کو جرمانہ کروں گا، لگتا ہے آئی جی اسلام آباد ملزمان کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔