اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ سرکاری ادارے ملازمین کو پال رہے ہیں، ان کو بٹھا کر تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بنچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں حیدر آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں کے وکیل کی جانب سے اطمینان بخش جواب نا ملنے پر سپریم کورٹ نے برہمی کا ظہار کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں، سرکاری ادارے کیا کر رہے ہیں؟ صرف ملازمین کو پال رہے ہیں، صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جا رہا ہے، ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جا رہی ہیں، حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بس کہا جاتا ہے خدمت کر رہے ہیں، ایک ایک اسامی پر تین تین گنا ملازمین کو بھرتی کر رہے ہیں، سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنی ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے، غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟
وکیل درخواست گزار ایڈووکیٹ ملک نعیم نے بتایا کہ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں تھیں، حکومت نے خود پراجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی، حکومت وہ خود چلائیں، کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر، صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے ؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟، ہم آئین کی دھجیاں اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے، صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ جسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کب ہوا تھا یہ کس نے کیا تھا ؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ جنرل مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئی پیکیج ملا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے، چیز قائم نہیں رہ سکتی، صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟