عدت نکاح کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کیخلاف اپیلوں پرسماعت کل تک ملتوی

Published On 10 July,2024 11:51 am

اسلام آباد: (دنیانیوز) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل صبح تک ملتوی کردی گئی۔

اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے کی، پی ٹی آئی کے معاون وکیل مرتضیٰ طوری عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر معاون وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ بیرسٹر سلمان صفدر راستے میں ہیں، 20 منٹ تک عدالت پہنچ جائیں گے لہذا عدالت سلمان صفدر کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیں ، بعد ازاں عدالت نے سلمان صفدر کے پہنچنے تک سماعت میں وقفہ کر دیا۔

سماعت کا دوبارہ آغاز

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر، خدیجہ صدیقی، خالد یوسف چوہدری عدالت میں پیش ہوگئے، خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ کے معاون وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

بشریٰ بی بی کی جانب سے وکیل خدیجہ صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے  کہا کہ گزشتہ روز بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں پراسکیوشن کے کیس کو تہس نہس کردیا، اس کیس میں میری ریسرچ کریمنل میں نہیں، سول کیس میں رہی،  عدت میں نکاح پر کریمنل کیس کیسے بن گیا، یہ خاتون کے تقدس اور وقار پر براہ راست حملہ ہے ، کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ خاتون کے ذاتی معاملات پر بات کرے ۔

جج افضل مجوکا نے متعددعدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ فرسٹ امپریشن کا کیس نہیں، متعدد فیصلوں میں شک کا فائدہ بھی دیا گیا اور ایف آئی آر بھی خارج ہوئی، یہ پہلا کیس نہیں لیکن ہائی لائٹ صرف یہی کیس ہوا، جس پر خدیجہ صدیقی نے کہاکہ کریمنل کیس میں ہمیشہ ٹھوس شواہد ہونے چائیں ، جرم تب ثابت ہو گا جب کیس ثابت ہو خاتون کا قول معتبر ہے۔

جج افضل مجوکا نے ریمارکس میں کہا کہ آپ دو طرف جا رہے ہیں اسلامک لا پر رہیں یا ہمارے موجودہ قانون پر میں اپنے قانون کا پابند ہوں ، جس پر خدیجہ صدیقی نے کہا کہ عدت کا مقصد کیا ہے عدت کا مطلب حاملہ ہونے سے متعلق ہے، میں ججمنٹ کا حوالہ دوں گی شادی اگر عدت میں ہو بھی گئی تو عدت پوری ہونے پر ریگولر ہو جائے گی۔

خدیجہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ پینل کوڈ میں کہیں عدت کا لفظ نہیں ملا، سابقہ شوہر کسی صورت نہیں بتا سکتا کہ عدت اور خاتون کی ماہواری کے تین سائیکل کب مکمل ہوئے؟ سابقہ شوہر نے شکایت بھی 2000 دنوں کے بعد فائل کی، عدت میں شادی کے حوالے سے پہلے بھی کئی کیسز ہوئے تاہم یہ پہلا کیس کہا جاسکتا ہے جو زیادہ مشہور ہوا۔

خدیجہ صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جرم تب بنتا ہے جب ثابت ہو کہ عدت میں شادی ہوئی، اپریل 2017 میں زبانی طلاق دی، بشریٰ بی بی اپنی عدت گزار کر اپنی والدہ کے گھر گئیں، بیک ڈیٹ میں طلاق نامہ بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہے، اس کیس میں حمل کا بھی کوئی معاملہ نہیں ہے۔

 وکیل نے کہا کہ میاں بیوی کہہ رہے ہیں کہ ہماری شادی ہوچکی ہے مگر عدالت کہہ رہی کہ نہیں ہوئی، جج نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ یہ بات عدالت نہیں کہہ رہی ہے،  فاسق اور باطل کے حوالے سے بڑے واضح قانون بنے ہوئے ہیں ، فتویٰ عالمگیری کے حوالے سے واضح طور پر بتایا گیا ہے۔

انہوں نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فراڈ میں میاں بیوی میں سے ایک بندے کو سزا ملنی ہوتی ہے، فراڈ ہمیشہ دو کے درمیان ہوتا ہے، یہاں پر نہیں بتایا گیا کہ کس کے ساتھ فراڈ ہوا؟ کسی دھوکے کی نیت سے کی گئی شادی فراڈ کہلائی جا سکتی ہے لیکن اس کیس میں دونوں میاں بیوی نے اسلامی اصولوں کے مطابق شادی کی ہے۔

اسی کے ساتھ خدیجہ صدیقی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہوگئے۔

بشریٰ بی بی کے وکیل نے دلائل کا آغازکردیا

بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر روسٹرم پر آگئے، اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ یہ مکمل طور پر 40 منٹ کے دلائل کا کیس ہے ، وکیل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ اس کیس میں پراسیکیوشن مکمل طور پر جھوٹ پر کھڑی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے خواجہ آصف کا بیان میرے ذہن میں آتا ہے مگر وہ بولوں گا نہیں، میں ججمنٹس کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ آپ کو سب فیصلوں کا پتا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 2، 3 دن کے اندر ٹرائل مکمل کرلیا، یہ کیس فیملی کورٹس کا بنتا تھا مگر وہاں گئے ہی نہیں۔

جج افضل مجوکا کا کہنا تھا کہ مرد کے پاس رجوع کا حق ہے اور آگے رجوع کرنا یا نا کرنا عورت کی مرضی ہے، وکیل نے بتایا کہ گزشتہ روز بھی ایک بات کی کہ یہ کیس سیاسی انتقام کے نتیجے میں بنایا گیا ہے، عدت کے دورانیہ کے ذکر کو چھوڑ کر بھی اس کیس میں سے بری کرایا جا سکتا ہے ، ایک اجنبی شکایت کنندہ بنتا ہے اور پھر وہ غائب ہوجاتا ہے، پھر چھ سال بعد خاوند آتا ہے اور شکایت کنندہ بن جاتا ہے، صرف یہ ہی چیز کافی ہے کیس ہو ختم کرنے کے لیے ، 2 ہزار دن چپ رہنے پر آپ نظر کرم کریں تو میرے مؤکل بری ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2 الزامات میں سے ایک ختم ہوجاتا ہے تو مطلب آدھا کیس ختم ہوجاتا ہے ، جب ہم سے ایک ایک دن کا حساب مانگا جا رہا ہے تو ان سے بھی مانگا جائے کہ انہوں نے ٹائم فریم نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں:عدت نکاح کیس : خاور مانیکا کی درخواست التوا مسترد، مزید سماعت کل تک ملتوی

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ ٹمپرنگ والے ڈاکومنٹ کے مطابق طلاق کے 48 دن بنتے ہیں ، دوسری جانب اصل دستاویز پیش ہی نہیں کیا گیا ، خاور مانیکا پر پی ٹی آئی کارکنان کو غم غصہ ہے مگر ان پر مقدمے کا ذکر کروں تو ہوسکتا ہے ہمدردی ہو جائے ، خاور مانیکا 25 ستمبر کو گرفتار ہوئے اور 14 نومبر کو وایس آئے ، جرح کے دوران تصدیق کی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ خاور مانیکا آزاد اورخود مختار گواہ نہیں ہیں ،ان کا بیان چیخ چیخ کر کہہ رہا کہ عدالت میرے بیان پر انحصار نہ کرے ، سائفر کیس میں اعظم خان کا بھی ملزم کا سٹیٹس تبدیل کیے بغیر گواہ کے طور پر عدالت پیش کردیا ، خاور مانیکا نے یہ بھی کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے وکیل رضوان عباسی سائفر کیس میں پراسکیوٹر ہیں، کریمنل کیس میں اگر ایک فیصد بھی شک پیدا ہو گیا تو ایک فیصد والا جیت جائے گا اور 99 والا ہار جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ  ان کے کیس میں کڑک دھوپ ہے شک کے سائے کا تو دور دور تک امکان نہیں ، خاور مانیکا کا کوئی بچہ نہیں آیا،  پی ڈبلیو ٹو بتاتا ہے کہ عون چودھری ایک ناقابل اعتماد گواہ ہے ، عون چودھری  کا کوئی حق نہیں کہ وہ عدت کے دورانیہ پر بات کریں، عدالت نے کیس کی سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کر دیا۔

وقفے  کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں باقی گواہوں پر نہیں جاؤں گا میری نظریں شکایت کنندہ سے آگے جاتی نہیں، خاور مانیکا کی یہ وضاحت قابل قبول نہیں کہ لوگوں نے باتیں کیں تو میں نے کیس کیا، عدالت اس کو مسترد کرے، خاور مانیکا نے کہا یہ درست ہے کہ میں نے جو ڈاکومنٹ دیا وہ فوٹو کاپی ہے، خاور مانیکا نے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ ڈی جی لا بھی رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل فٹا فٹ اور اب تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں ، تب تو فاضل دوست 6، 7 بجے کہتے تھے کہ یہ تو طریقہ نہیں، کام کریں، تو اب بھی کام کریں ، سلمان صفدر نے بتایا کہ طلاق نامہ فوٹو کاپی ہے اور اس پر یونین کونسل کے چیئرمین کے دستخط بھی موجود نہیں ہیں، عون چوہدری سیاسی مخالف ہے ، انہوں نے بتایا کہ ہمارے اختلافات چینی بحران کی وجہ سے ہوئے، ایسا گواہ جو سیاسی حریف ہو تو کیا ایسے گواہ کی گواہی قبول ہے ؟

وکیل نے مزید کہا کہ جب میاں بیوی میں سے کسی کا قتل ہوتا ہے تب بھی پوچھا جاتا ہے کہ بچوں کا بیان لیا گیا ہے یا نہیں تو فیملی کسیز میں بھی فیملی ممبران کو گواہ بنایا جاتا ہے، مفتی سعید کو جو بھی گاڑی مل جائے ان میں بیٹھ جاتے چاہے حنیف ہو یا خاور مانیکا، خود ان پر بغاوت کا کیس چلا اور انہوں نے تصدیق بھی کی۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ دعا تب ہوتی ہے جب خاندان کی رضامندی ہوتی ہے ، بانی پی ٹی آئی نے 342 کے بیان میں بتایا کہ میرے دو بیٹے تھے، ان کو اعتماد میں لینا تھا۔

اسپر جج افضل مجوکا نے وکیل سے استفسار کیا کہ 342 کے بیانات میں صرف سوالوں کے جواب پر غور کرنا ہے یا سیاسی جوابات کو بھی دیکھنا ہے؟

بعد ازاں جج افضل مجوکا اور بیرسٹر سلمان صفدر کے درمیان 342 کے بیان کے حوالے سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالوں کا تبادلہ ہوا، وکیل نے بتایا کہ 342 کے بیان میں پوچھا گیا کہ عدت کے دورانیے میں خاتون کے بیان کی کیا اہمیت ہے؟

اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر عدت کے دورانیہ کے حوالے سے مفتی سعید کے وڈیو بیان کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا۔

وکیل نے دلائل دیے کہ شادی ، طلاق لاہور میں ہوتی ہے اور اپیل یہاں اسلام آباد میں دائر کی گئی ، جج نے استفسار کیا کہ کیا مسلم فیملی لا کے مطابق تحریری طلاق کے علاوہ طلاق نہیں ہوسکتی ؟ سلمان صفدر نے کہا کہ بالکل ہوسکتی ہے۔

اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر نے زینب عمیر ایڈوکیٹ کو روسٹرم پر بلانے کی استدعا کردی جسے عدالت نے منظور کرلی۔

بعد ازاں زینب عمیر ایڈووکیٹ نے بشریٰ بی بی کا 342 کا بیان پڑھ کر سنایا۔

اس پر عدالت نے خاور مانیکا کے وکلا سے طلاق نامے پر تاریخ کی ٹیمپرنگ کے حوالے سے جواب مانگ لیا۔

جج افضل مجوکا نے زاہد آصف کے معاون وکیل کو ہدایت دی کہ اپنے دلائل میں آپ نے یہ جواب دینا ہے کہ گواہوں کے بیانات ملزمان کو کیوں نہیں دیے گئے ؟ آپ نے کیس میں شہادت پیش ہی نہیں کی تو پڑھی کیسے جائے گی؟ اس پر بھی جواب دینا ہے۔

جج نے سلمان سفدر سے دریافت کیا کہ خاور مانیکا نے جو ذاتی باتیں بتائی ہیں وہ آپ لوگوں نے چیلنج کیوں نہیں کی ؟ وہ تو میاں بیوی کی ذاتی زندگی کی باتیں تھیں؟

بعد ازاں زینب عمیر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس صورتحال میں ہم عدت پر جا ہی نہیں سکتے ، عدت میں اس وقت جایا جا سکتا کہ اگر خاتون کے ہاں کوئی اولاد ہو تو سابقہ شوہر کلیم کرسکتا کہ وہ میرا ہے ، سپریم کورٹ کی آخری ججمنٹ کے مطابق میڈیکل طور پر 39 دن عدت کا دورانیہ بتایا گیا ہے۔

بشریٰ بی بی کی وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہوگئے ، عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 9 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت  ملتوی کردی تھی۔

 یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں مرکزی اپیلوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کے حکم پر نظرثانی درخواست خارج کردی تھی۔

اس سے قبل عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کے دوران بشریٰ بی بی کے وکیل نے التواء کیخلاف درخواست دائرکی تھی۔

واضح رہے کہ 3 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 8 جولائی ملتوی کرتے ہوئے جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ 12 جولائی تک ہر حال میں فیصلہ سنانا ہے۔