لاہور: (خاور نیازی) ماہرین ارضیات کے مطابق اس کرہ ارض کا لگ بھگ 72 فیصد حصہ پانی اور صرف 28 فیصد خشکی یعنی ہماری زمین پر مشتمل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کرہ ارض کے 28 فیصد حصے کے قابض یعنی ہم انسانوں نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر 72 فیصد حصے کی مالک، آبی مخلوق کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی ہے اس نے پوری دنیا کے سائنس دانوں اور سنجیدہ طبقوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔
نتائج سے بے خبر ہم انسانوں نے پلاسٹک کے ذریعے سمندروں میں آبی آلودگی میں اضافے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے ماہرین کے مطابق وہ ہر ایک سیکنڈ میں سیکڑوں آبی حیات کی ہلاکتوں کا سبب بن رہی ہے، ماحولیات کے حوالے سے ایک غیر سرکاری عالمی تنظیم 5 گیئرس انسٹیٹیوٹ ‘‘ کے ایک حالیہ تجزیے کے مطابق دنیا کے سمندروں میں 1700 کھرب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے تیر رہے ہیں جبکہ ہر روز 80 لاکھ پلاسٹک کے نئے ٹکڑے سمندروں میں داخل ہوتے ہیں‘‘۔
اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 2040ء تک یہ مقدار تین گنا ہو جانے کا خدشہ ہے جو سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوگی‘‘، اس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں ماہرین ارضیات نے برازیل کے جزیرہ ٹرینیڈاڈ پر پلاسٹک کی آلودگی کے باعث وجود میں آنے والی پلاسٹک کی کچھ خلاف فطرت چٹانوں کا انکشاف بھی کیا ہے۔
اس کی وجوہ پر روشنی ڈالتے ہوئے سانتوس نامی ایک ماہر ارضیات بتا رہے تھے کہ سمندروں میں غلط طریقوں سے پھینکا جانے والا پلاسٹک ارضیاتی مواد بنتا جا رہا ہے، چنانچہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو یہ پگھل کر ساحل سمندر کے ساتھ موجود قدرتی چٹانوں کے ساتھ مل کر رفتہ رفتہ پلاسٹک کی چٹانوں‘‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
آبی مخلوق کی ہلاکت
اس بگڑتی صورت حال سے کرہ ارض کے ماحول میں کیا بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ہم آپ کے سامنے تین واقعات پیش کر رہے ہیں جس کے بعد اس صورت حال کی وضاحت کی مزید ضرورت نہیں رہتی۔
آج سے چند سال پہلے ایک خبر دنیا بھر کے اخبارات میں جلی سرخیوں کی زینت بنی تھی جس کے مطابق فلپائن کے مابانی نامی ساحل پر ایک ایسی وہیل مچھلی مردہ حالت میں ملی تھی جس کے پیٹ سے 40 کلوگرام پلاسٹک کچرا برآمد ہوا تھا۔
تفصیلات کے مطابق مابانی ساحل کے حکام کو معمول کے گشت کے دوران ساحل پر پھنسی ساڑھے پندرہ فٹ لمبی ایک بھاری بھر کم وہیل مچھلی نظر آئی جسے مقامی حکام نے مچھیروں کی مدد سے پکڑ کر دوبارہ پانی میں دھکیل دیا تھا لیکن اگلے ہی روز بھوک سے ہلاک ہونے والی اس مچھلی کی تیرتی ہوئی لاش اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنی جب اس مردہ وہیل کی تحقیق کرنے والے ماہر ڈیرل بلیچ نے بتایا کہ اس مردہ مچھلی کے پیٹ سے چاول کی خالی بوریا ں اور شاپنگ بیگز سمیت پلاسٹک کا چالیس کلو گرام کچرا برآمد ہوا ہے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈیرل بلیچ نے بتایا کہ اس وہیل کا معدہ پلاسٹک کچرے سے بھرا ہونے کے باعث یہ مزید کچھ کھانے سے قاصر تھی جس کے باعث بھوک سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
یہ واقعہ اس لئے بھی افسوسناک تھا کہ اس سانحہ سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل گلوبل الائنس فار انسینیریٹر آلٹرنیٹیو‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ فلپائن میں سالانہ 60 ارب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال ہوتی ہیں جن کی کثیر تعداد کسی نہ کسی طریقے سمندروں تک پہنچ جاتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک بھی آبی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں جس کی وجہ سے وہیل، کچھوے اور دیگر سمندری حیات تیزی سے ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔
بات چلی ہے تو اسی حوالے سے ہم 2019ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں جانوروں کی ایک فلاحی تنظیم دا گمبو لمبو نیچرل سنٹر‘‘ کی ایک کارکن ایملی مروسکی کی فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ننھے منے کچھوے کی تصویر کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو فلوریڈا کے ساحل پر نیم مردہ حالت میں پایا گیا تھا جس کے پیٹ سے مائیکرو پلاسٹک کے 104 ٹکڑے برآمد ہوئے تھے۔
ایملی مروسلی نے اس ہلاکت پر افسوس کرتے ہوئے وضاحت کی کہ جب مارچ اور اکتوبر کے درمیان کچھوؤں کے بچے انڈوں سے نکلتے ہیں تو وہ تیرتی ہوئی گھاس کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے ابتدائی سال گزارتے ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ سمندر میں جتنا بھی پلاسٹک پھینکا جاتا ہے وہ یہاں اس سمندری گھاس پر آکر رک جاتا ہے اور کچھووں کے بچے سمندری گھاس میں اٹکے مائیکرو پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھانا شروع کر دیتے ہیں۔
نتیجتاً وہ سمجھتے ہیں ان کا معدہ خوراک سے بھر چکا ہے اور وہ مزید کھانا چھوڑ دیتے ہیں جس سے انہیں خوراک کی کمی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اور بالآخر وہ نڈھال ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد ایک معروف امریکی ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جانوروں کے علوم کے ایک ماہر کہہ رہے تھے کہ یہ اس ننھے کچھوے کی ہلاکت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ رواں سال اسی ساحل پر بیسیوں کچھوے مائیکرو پلاسٹک نگلنے کے بعد بھوک کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔
پلاسٹک کی بارش
پہاڑوں، دریاؤں، سمندروں کی آلودگی بارے تو اب کچھ پوشیدہ نہیں رہا لیکن بارشوں کی آلودگی بارے پہلی بار سنا ہے، ایک تحقیق کے مطابق امریکی ریاست کولو راڈو میں واقع راکی ماونٹین نیشنل پارک میں رنگین پلاسٹک کی بارش ہوتی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات ہمارے اس سیارے کے دورافتادہ حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بارش کے پانی میں پلاسٹک کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پلاسٹک کا پانی میں پایا جانا ہر جگہ ہے، یہ صورت حال صرف شہروں تک محدود نہیں ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اب یہ کہہ دینے میں کوئی عار نہیں کہ زمین، سمندر، پہاڑ اور فضا سمیت کوئی ایسا مقام نہیں بچتا جہاں پلاسٹک یا اس کی باقیات نہ ہوں لیکن قدرتی طور پر ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ آخر پلاسٹک اور اس کے ذرات سمندروں تک پہنچتے کیسے ہیں اور پھر سمندروں سے کہاں کا رخ کرتے ہیں؟
پلاسٹک کچرا کہاں اور کیسے جاتا ہے؟
سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ہم ہر روز لاکھوں ٹن کچرا پیدا کرتے ہیں جس میں سے لگ بھگ ایک کروڑ ٹن کچرا مختلف مراحل طے کرتا ہوا سمندروں تک پہنچ جاتا ہے، اس کچرے کا نصف چونکہ پانی سے ہلکا ہوتا ہے اس لئے وہ پانی پر تیرتا رہتا ہے، سائنس دان کہتے ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانی پر تیرنے والا کچرا تین لاکھ ٹن ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر باقی 97 لاکھ ٹن کچرا کہاں جاتا ہے؟، ماہرین اس کا جواب اس طرح دیتے ہیں، ہم انسانوں کی غفلت سے پھینکا گیا پلاسٹک کچرا جو تیز بارشوں یا تیز ہواؤں کے سبب ندی نالوں میں جا پہنچتا ہے اور پھر چلتے چلتے اس کی اگلی منزل دریا ہوتے ہیں، جہاں سے رفتہ رفتہ بالآخر یہ اپنی آخری منزل سمندر کا رخ کرتے ہیں، سمندر پہنچ کر پلاسٹک کا یہ کچرا جو ہر سائز کا ہوتا ہے سمندر کی تیز رفتار لہروں اور سورج کی الٹرا وائلٹ شعاوں کے باعث ہفتوں یا مہینوں کے اندر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
پلاسٹک کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یا ذرات مائیکرو پلاسٹک‘‘ کہلاتے ہیں، جن کا عمومی سائز پانچ ملی میٹر سے لے کر بیکٹیریا سے بھی چھوٹے نقطے کے برابر ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ ان ذرات کو بمشکل خوردبین ہی سے دیکھا جا سکتا ہے، چنانچہ عام طور پر مچھلیاں یا دیگر آبی مخلوق ان ذرات کو خوراک سمجھ کر کھاتی رہتی ہیں جو بالآخر ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔
خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرسے سے لکھتے آ رہے ہیں۔