اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے، پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔
حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کر دی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔
عمران خان نے پیر کو جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیان دیا کہ انہوں نے جی ایچ کیو کے سامنے کارکنوں کو پر امن احتجاج کی کال دی تھی، کارکنوں کو کہا تھا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو آپ نے پرُ امن احتجاج کرنا ہے، بانی پی ٹی آئی کا بیان میڈیا پر آنا تھا کہ حکومت کو انہیں آڑے ہاتھوں لینے کا بہانہ ملک گیا، ریاست 9 مئی کے واقعات کی ذمہ دار تحریک انصاف کو قرار دیتی آئی ہے مگر پی ٹی آئی ہمیشہ اسے اپنے خلاف سازش گردانتی رہی ہے۔
تحریک انصاف کا مؤقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی تو گرفتار ہو چکے تھے وہ 9 مئی کے واقعات کی ہدایات کیسے دے سکتے تھے؟ مگر سابق وزیراعظم کے اعتراف نے اس معاملے پر تحریک انصاف کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیا ہے، بانی پی ٹی آئی نے اس گفتگو میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ 9 مئی کے مقدمات میں انہیں ملٹری کورٹ بھجوانے کا پلان ہے مگر ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ اس بیان کے بعد معاملے کو ملٹری کورٹ لے جانے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
سابق وزیراعظم کے بیان کے بعد (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو تحریک انصاف کے خلاف کھُل کر کھیلنے کا موقع مل گیا، مریم نواز نے کہا کہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ نے اعتراف کر لیا، انتشاری ٹولے کے خلاف سخت کارروائی قومی سلامتی کا تقاضا ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت نے کہا کہ عمران کو اس جرم کی معافی مانگنی چاہیے، عمران خان کے بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جیل سے باہر قیادت کو اندازہ ہوگیا کہ بڑا بلنڈر ہو چکا ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا سکتا ہے چنانچہ تحریک انصاف کی قیادت نے بانی پی ٹی آئی کے بیان پر وضاحتیں دینا شروع کر دی ہیں۔
منگل کے روز عمران خان سے ملاقات کے بعد سلمان اکرم راجہ نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے مطابق اعتراف سے متعلق خبر لغو ہے، 9 مئی کے حوالے سے انہوں نے کوئی اعتراف نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ 14 مارچ کو زمان پارک اور 18 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس میں حملہ ہوا تھا جس کے بعد پارٹی میں فیصلہ ہوا کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو پرُ امن احتجاج ہوگا۔
تحریک انصاف وضاحتوں میں بھی احتجاج کی اونرشپ تو لے رہی ہے مگر اس احتجاج کے نتیجے میں ہونے والے سانحے کو سازش قرار دیتی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ دراصل 9 مئی کا واقعہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا اعتراف بانی پی ٹی آئی کر چکے ہیں، گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کا اعلان کیا گیا مگر ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود یہ معاملہ صرف بیانات تک محدود رہا۔
ایک ہفتہ قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ 9 مئی کے حملے، سائفر کے معاملے اور امریکہ میں قرار داد سمیت ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، وزیر اطلاعات نے تحریک انصاف پر پابندی کے علاوہ عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کے فیصلے کا بھی اعلان کیا، اس اعلان کے بعد حکومتی اتحادیوں نے اس انتہائی اہم معاملے پر مشاورت نہ کرنے پر شکوہ کیا، اتحادیوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع تو کیا گیا ہے مگر وہ تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
گزشتہ روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں معاملہ زیر غور آنا تھا مگر اتحادیوں کی سپورٹ اور قانونی رکاوٹوں کے باعث ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکا، اگرچہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پابندی کے حوالے سے وفاقی حکومت کے پاس میٹریل موجود ہے، وفاقی حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچ رہی ہے، سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے سے پہلے سیاسی اور قانونی پہلوؤں کو دیکھا جائے گا۔
وفاقی حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اتحادیوں کی سپورٹ مل بھی جائے تو تحریک انصاف پر پابندی لگانا ناممکن کام ہے، آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اگر وفاقی حکومت یہ اعلان کر دے کہ کوئی سیاسی جماعت ایسے طریقے پر بنائی گئی ہے یا عمل کر رہی ہے جو پاکستان کی حاکمیتِ اعلیٰ یا سالمیت کیلئے مضر ہے تو وفاقی حکومت مذکورہ اعلان سے پندرہ روز کے اندر معاملہ عدالت عظمیٰ کے حوالے کر دے گی جس کا مذکورہ حوالے سے سے فیصلہ قطعی ہوگا۔
وفاقی حکومت کو اندازہ ہے کہ جب وفاقی کابینہ کی منظوری سے پابندی کا سرکاری اعلان ہونے کے 15 روز میں معاملہ سپریم کورٹ جائے گا تو عدالت کے سامنے ایک جماعت پر پابندی کیلئے ٹھوس وجوہات پیش کرنا ہوں گی، حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر الزامات سیاسی ڈومین میں تو لگائے جا رہے ہیں مگر قانونی محاذ پر ان الزامات کو ثابت کرنا حکومت کیلئے انتہائی مشکل ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان جس نے مخصوص نشستوں سے متعلق اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے، اس عدالت کے سامنے یہ ثابت کرنا کہ تحریک انصاف ملکی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے اس پر پابندی عائد کی جائے آسان کام نہیں ہوگا، حکومت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے اعلان کو سیاسی ڈومین میں ہی استعمال کرتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ قانونی شکل دینے کے بعد اس معاملے کو سپریم کورٹ لانے کے نتائج وفاقی حکومت کو بخوبی معلوم ہیں۔
بانی پی ٹی آئی توشہ خانہ کے نئے کیس سمیت 9 مئی کے درجن بھر کیسز میں زیر تفتیش ہیں، پاکستان تحریک انصاف کا اسلام آباد میں مرکزی دفتر بھی سیل کر دیا گیا ہے اور ریاست مخالف بیانیہ بنانے پر تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن سمیت 9 افراد زیر حراست ہیں، تحریک انصاف کی پارلیمانی قیادت روزانہ کی بنیاد پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے علامتی بھوک ہڑتال کرتی ہے، موجودہ صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی تو شاید نہ لگ سکے گی مگر اس کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آرہیں۔