ڈیجیٹل اکانومی کے ماحولیاتی اثرات

Published On 03 August,2024 12:39 pm

لاہور: (محمد علی) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی(UNCTAD) کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت پر جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بٹ کوائن کی ڈیٹا مائننگ کیلئے توانائی کی مقدار 121 ٹیرا واٹ تک پہنچ گئی تھی جو کئی ممالک میں ہر سال استعمال والی توانائی سے بھی زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2015 ء سے 2023ء کے دوران بٹ کائن کی مائننگ کیلئے استعمال ہونے والی توانائی میں 34 گنا اضافہ ہوا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیزی سے فروغ کرتے اس شعبے کے ماحول پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو مزید سنجیدگی سے لینا اور قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری کے ذریعے ان کی رفتار کو سست کرنا ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی(UNCTAD) کی سیکرٹری جنرل Rebeca Grynspanکے مطابق مصنوعی ذہانت، کرپٹو کرنسی اور کرپٹو مائننگ جیسی ٹیکنالوجی سے توانائی کے خرچ میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگیا ہے، ان کے مطابق 2015ء سے 2023ء کے درمیان بٹ کوائن کی مائننگ میں خرچ ہونے والی توانائی کی مقدار میں جتنا اضافہ ہوا ہے اس توانائی کی سالانہ مقدار بیلجیئم اور فن لینڈ جیسے ممالک میں ہر سال خرچ کی جانے والی توانائی سے بھی زیادہ ہے۔

آج دنیا بھر میں ساڑھے پانچ ارب لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور عالمگیر ڈیجیٹل معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے جس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے، اس معیشت کی قدر کو دیکھا جائے تو 2022ء میں 43 ممالک میں ای کامرس کے ذریعے 27 ہزار ارب ڈالر کی خرید و فروخت ہوئی جبکہ 2016 ء میں اس تجارت کا حجم 17 ہزار ارب ڈالر تھا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی (UNCTAD) کی سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اس بارے میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں کہ کیسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کاغذ کے استعمال میں کمی لاسکتی ہے، اس سے توانائی کی استعداد میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور یہ نقل و حمل، تعمیرات، زراعت اور توانائی کے شعبے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے،لیکن اس کے منفی رخ پر کم ہی بات ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کے عمل میں بڑی مقدار میں ایسی توانائی استعمال ہوتی ہے جس کا کاربن کے اخراج میں نمایاں ترین کردار ہے۔

ماحول کو لاحق اس خطرے سے نمٹنے اور ٹیکنالوجی کو مساوی اور ماحولیاتی اعتبار سے ذمہ دارانہ بنانے کیلئے   UNCTAD‘‘ کی اس رپورٹ میں پالیسی کے حوالے سے متعدد تجاویز دی گئی ہیں جو موبائل فون سمیت الیکٹرانک آلات کی تیاری میں استعمال ہونے والی قیمتی دھاتوں سے لے کر پانی جیسے دیگر اہم قدرتی وسائل تک بہت سے چیزوں کا احاطہ کرتی ہیں، UNCTAD کے مطابق 2023ء میں دنیا بھر کے ڈیٹا مراکز نے 460 ٹیرا واٹ آور توانائی استعمال کی جو کہ امریکہ میں ایک سال کے دوران چار کروڑ 20 لاکھ گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کے برابر ہے، 2026ء تک یہ مقدار دو گنا بڑھ جانے کی توقع ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ڈیجیٹل شعبے کا حصہ ڈیڑھ سے 3.2 فیصد تک ہے جو کہ نقل و حمل اور جہاز رانی سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہے، 2018ء اور 2023 ء کے دوران 13 بڑے ڈیٹا سنٹر آپریٹروں کے توانائی کے خرچ میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا، اس سے ٹیکنالوجی کے اس شعبے میں توانائی اور پانی کے خرچ سے مسئلے سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت واضح ہوتی ہے۔

گوگل نے انکشاف کیا تھا کہ 2022ء میں اس کے ڈیٹا مراکز اور دفاتر میں 21.2 ملین کیوبک میٹر پانی استعمال ہوا، متعدد ممالک میں واقع ایسے مراکز میں پانی کے بڑی مقدار میں استعمال پر مقامی لوگوں میں تشویش اور تناؤ بھی پیدا ہوا ہے، مائیکروسافٹ کے مطابق صرف چیٹ جی پی ٹی 3 کی تیاری کیلئے سات لاکھ گیلن صاف اور تازہ پانی کی ضرورت ہوگی جبکہ سیل رپورٹس سسٹینبیلٹی نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایک بٹ کوائن کا لین دین گھریلو سوئمنگ پول جتنا پانی خرچ کر سکتا ہے۔

UNCTAD کی رپورٹ کے مطابق 2000ء میں آن لائن خریداری کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ تھی جو 2021ء میں دو ارب 30 کروڑ تک جا پہنچی، اس اضافے کے نتیجے میں 2010ء سے 2022ء کے دوران ڈیجیٹل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے فضلے یا کچرے کی مقدار 10 کروڑ 50 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی تھی،UNCTAD کی سیکرٹری جنرل کے مطابق اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا انتظام بھی ناکافی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی اور ماحول پر اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو یہ مسئلہ سنگین تشویش کا باعث ہے۔

UNCTAD کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ہر سال فی کس 3.25 کلو گرام ڈیجیٹل فضلہ پیدا کرتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں اس کی مقدار ایک کلو گرام سے کم اور کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں 0.21 کلوگرام تک ہے، اس سے ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کی غیرمساوی تقسیم کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔