لاہور: (محمد علی) ہزاروں کی تعداد میں اولمپک ایتھلیٹس پیرس کے پوڈیم میں جگہ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں، کچھ جو سب سے اوپر ہیں صرف وہی گولڈ میڈل کے ساتھ گھر جا رہے ہوں گے، جیسا کہ پاکستان کا مایہ ناز ایتھلیٹ ارشد ندیم۔
اگرچہ اولمپکس اپنے چیمپئنز کو بے پناہ عظمت اور کھیلوں کی تاریخ میں نمایاں مقام سے نوازتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اولمپک میڈل جیتنے والے کوئی پیسہ نہیں کمائیں گے، بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (IOC) فاتحین کو مالی طور پر ایوارڈ نہیں دیتی ہے لیکن یہ حکومتوں یا تنظیموں یا کھیلوں کی فیڈریشنز کو کھلاڑیوں کو نقد یا دیگر انعامات کی ترغیب دینے سے نہیں روکتی، اس سال کچھ فیڈریشنز نے پیرس گیمز میں ایسا ہی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹریک اینڈ فیلڈ کی بین الاقوامی گورننگ باڈی نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹس میں اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والوں کو 50 ہزار ڈالر کا انعام دیا جائے گا جو کھیلوں کی فیڈریشن کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا انعام ہے، مئی میں بین الاقوامی باکسنگ ایسوسی ایشن ، جسے گزشتہ سال آئی او سی نے مالی اور گورننس کے خدشات کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا تھا نے کہا تھا کہ وہ باکسنگ گولڈ میڈل جیتنے والوں کو ایک لاکھ ڈالر کی پیشکش کرے گی۔
تاہم بعض فیڈریشنز کے مطابق اس طرح کے اقدامات اولمپکس کی اقدار کو مجروح کرتے ہیں اور ان کھیلوں کیلئے غیر منصفانہ ہیں جو انعامی رقم پیش کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تاہم کھیلوں کے کئی اداروں اور کھلاڑیوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو انعام دینے کا دفاع کیا ہے اور اولمپک کے تمام ایونٹس میں فاتحین کو زیادہ رقم منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اپریل میں ورلڈ ایتھلیٹکس کے صدر نے کہا تھا کہ اگرچہ اولمپک میڈل جیتنے پر یا اولمپک کھیلوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کیلئے درکار عزم اور توجہ پر بولی لگانا‘‘ ناممکن ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ ہم کہیں سے شروع کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اولمپک کھیلوں میں ہمارے کھلاڑیوں کی آمدنی کا کچھ حصہ براہ راست ان لوگوں کو واپس کیا جائے جو ان کھیلوں کو عالمی توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔
بعض فیڈریشنز جو اپنے چیمپئنز کو ادائیگی کریں گی، کچھ ممالک بھی تمغے لانے والے کھلاڑیوں کو انعامات دیتے ہیں، جیسا کہ ارشد ندیم کیلئے پاکستان میں مختلف حکومتی سطح پر انعامات کے اعلان کئے گئے ہیں، اولمپک فاتحین کس طرح سے مالی فوائد اور انعامات حاصل کر سکتے ہیں۔
نقدی
اولمپک میڈل کیلئے سب سے بڑی ادائیگی کیا ہوسکتی ہے؟ سعودی حکام نے کراٹے کے ایتھلیٹ طارق حمیدی کو 50 لاکھ ریال (تقریباً 13 لاکھ ڈالر) سے نوازا جب 2021ء میں انہوں نے ٹوکیو اولمپکس میں غیر قانونی طور پر کک پر نااہل ہوگئے تھے، بحرین اور قطر جیسی دیگر امیر خلیجی ریاستیں جن کی منافع بخش سودوں کے ساتھ غیر ملکی کھلاڑیوں کو خریدنے‘‘ کی تاریخ ہے، کھیلوں کے تمغوں کے بدلے میں بھاری انعامات پیش کرنے کیلئے بھی مشہور ہیں۔
2005ء میں قطر نے جنوبی افریقہ کے سرفہرست تیراک رولینڈ شو مین کو ایک ملین ڈالر کے معاہدے کی پیشکش کی تھی جس میں ہر اولمپک میڈل یا عالمی ٹائٹل جیتنے پر 50 ہزار ڈالر سے زیادہ بونس بھی شامل ہے، شو مین نے بالآخر اس پیشکش کو مسترد کر دیا، ہانگ کانگ کے کسی کھلاڑی نے پیرس اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتا تو وہ سب سے بڑے نقد انعام وصول کرے گا جو کہ 750 ہزار ڈالر سے زیادہ ہو گا۔
اسی طرح سنگاپور، اپنے میجر گیمز ایوارڈ پروگرام کے ذریعے، جو بڑے پیمانے پر قومی لاٹری بورڈ کے تحت ہے، انفرادی فاتحین کیلئے 10لاکھ سنگاپور ڈالر (ساڑھے سات لاکھ یو ایس ڈالر سے زیادہ) دے گا، ٹیم ایونٹس کے فاتحین کیلئے 15 لاکھ سنگا پور ڈالر (جیسے ایتھلیٹکس ریلے یا ٹینس ڈبلز) اور ٹیم سپورٹس کے فاتحین کیلئے 20 لاکھ سنگا پور ڈالر پیش کرتا ہے۔
اس رقم کا 50 فیصد چاندی کے تمغہ جیتنے والوں اور 25 فیصد کانسی کا تمغہ جیتنے والوں کو بھی ملے گا۔ تاہم اب تک صرف ایک سنگاپورین ہی ٹاپ پرائز کا دعویٰ کرنے میں کامیاب رہا ہے، تیراک جوزف اسکولنگ جو ریو 2016ء اولمپکس میں ریاست کا پہلا اور واحد سونے کا تمغہ جیتنے والا ایتھلیٹ ہے۔
تائیوان کے اولمپک طلائی تمغہ یافتگان ایک سرکاری پروگرام کے تحت چھ لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم اور 4 ہزار ڈالر کا زندگی بھر کا ماہانہ وظیفہ وصول کرتے ہیں، دیگر حکومتیں جنہوں نے اپنے اولمپک چیمپئنز کو بڑے بڑے نقد انعامات پیش کئے ہیں ان میں شامل ہیں، انڈونیشیا، قازقستان، ملائیشیا، مراکش، اٹلی، فلپائن، ہنگری، کوسوو، ایسٹونیا، اور مصر میں کھلاڑیوں کو ان کی حکومتوں کے علاوہ قومی کھیلوں کی تنظیموں سے بھی انعامات ملتے ہیں۔
بھارتی حکومت اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والوں کو 75 لاکھ روپے (تقریباً 90 ہزار ڈالر) پیش کرتی ہے جبکہ ہندوستانی اولمپک ایسوسی ایشن انہیں الگ سے ایک کروڑ روپے کا انعام دیتی ہے۔
کاریں، مکان، گائیں
کچھ ممالک میں جیتنے والے کھلاڑیوں کو نقد رقم کے علاوہ پرتعیش کاروں سے لے کر اپارٹمنٹس دیئے جاتے ہیں، ملائیشیا کے حکام نے اپنے کھلاڑیوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ پیرس سے تمغے لاتے ہیں تو انہیں غیر ملکی ساختہ گاڑیاں دی جائیں گی، قازقستان میں اولمپک فاتحین قانونی طور پر اپارٹمنٹس کے حقدار ہیں، جن کا سائز ان کے تمغے کے رنگ کے مطابق مختلف ہوگا۔
لندن 2012ء اولمپکس میں چینی شوٹر کو، ایئر رائفل ایونٹ میں سونے کا تمغہ جیتنے کے بعد گوانگ ڈونگ صوبے کے حکام نے 76 لاکھ یوآن (10لاکھ ڈالر سے زیادہ) کا نقد انعام دیا، اس کے ساتھ 30ہزار ڈالر مالیت کی ایک کار بھی دی، انڈونیشیا کے بیڈمنٹن گولڈ میڈلسٹ گریشیا پولی اور اپریانی رہائو ٹوکیو اولمپکس کے بعد وطن واپس آئے تو انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے نقد انعام کے علاوہ مقامی حکام اور کاروباری افراد نے اس جوڑی کو گائے، ایک گھر اور یہاں تک کہ ان کے اپنے میٹ بال ریستوران سمیت تحائف سے نوازا۔
آسٹریا کے اولمپک طلائی تمغہ یافتگان کو اس سے پہلے 17ہزار یورو (18ہزار ڈالر سے زیادہ) مالیت کے انعام مل چکے ہیں، روس میں اولمپک چیمپئنز کو عام طور پر مہنگی غیر ملکی کاروں، اپارٹمنٹس، اعزازی عنوانات اور زندگی بھر کے وظائف کے ساتھ 40 لاکھ روبل( 45,300 ڈالر) دیئے جاتے ہیں۔
جیت کا فخر انمول
برطانیہ، ناروے اور سویڈن جیسے ممالک اولمپک میڈل جیتنے والوں کو کوئی نقد انعام پیش نہیں کرتے مگر کچھ کھلاڑیوں نے واضح کیا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ انہیں ادائیگی کی جانی چاہئے جبکہ بعض کے خیال میں یہ غیر ضروری ہے، برطانوی اولمپک چیمپئن روور سر اسٹیو ریڈ گریو نے بی بی سی کو ورلڈ ایتھلیٹکس کی جانب سے فاتحین کو نقد رقم کی پیشکش کی خبر کے بعد کہا ایتھلیٹکس میں سونے کا تمغہ جیتنے والے تمام کھلاڑی پیرس سے پہلے اور یقینی طور پر پیرس کے بعد نمایاں رقم کمانے کے اہل ہیں، لہٰذا آپ ان لوگوں کو رقم دے رہے ہیں جن کے پاس پہلے سے ہی یہ ہے۔‘‘
دریں اثنا، ناروے کے اولمپک چیمپئن رکاوٹ کارسٹن وارہولم جنہوں نے ورلڈ ایتھلیٹکس کو اس اقدام کیلئے سراہا ہے، نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اولمپکس میں فتح کی قیمت اکثر کسی بھی مالی انعام سے زیادہ ہے۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔