لاہور : (دنیانیوز) لاہور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دائردرخواست پر سماعت میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن سے 27 ستمبر کو جواب طلب کر لیا ۔
لاہور ہائیکورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دائر درخواست پر جسٹس راحیل کامران شیخ نے شہری منیر احمد کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ جاری ہے، اٹارنی جنرل وہاں مصروف ہیں، سپریم کورٹ میں بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے پہلے ہی درخواست دائر کی جا چکی ہے، سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو کہ اس کیس میں اصل فریق ہے اس نے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے۔
جسٹس راحیل کامران شیخ نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ کیس کیسے قابل سماعت ہے ؟ ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ایسی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اگر سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے تو اس کا کوئی نمبر ہوگا، کوئی نوٹس جاری ہوئے ہوں گے؟۔
وکیل درخواست گزارنے کہاکہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے آرڈر کیا تھا کہ اٹارنی جنرل بذات خود پیش ہوں ، ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ سپریم کورٹ بارہا کہہ چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 ( 3) کے تحت براہ راست درخواست دائر نہیں ہو سکتی۔
جسٹس راحیل کامران نے کہا کہ نیب ایکٹ کی شقیں سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی ہیں، تو پھر وہ کیسے چیلنج ہو سکتی ہے ؟ ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد ایسی درخواستیں دائر نہیں ہوئیں، نیب ایکٹ کے خلاف درخواست پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے پہلے دائر ہوئی تھی، 90 دن میں الیکشن نہیں ہو رہے تھے تو ہم نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔
ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی درخواست گئی تو سپریم کورٹ نے کہا کہ پہلے ہائیکورٹ اس کیس کو دیکھے، عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ قانون کے مطابق تو یہ کیس کہیں بھی دائر ہو سکتا ہے ؟ ۔
جسٹس راحیل کامران نے کہا کہ استدعا کا دوسرا حصہ پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے حوالے سے ہے ، اس میں پی ٹی آئی کو فوقیت دی جائے گی، اگر ترمیمی ایکٹ غیر آئینی ہو گیا تو بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوگا، اگر وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن 15 دنوں میں جواب جمع نہیں کرواتے تو میں آپ کا حق دفاع ختم کروا دوں گا۔
عدالت نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن سے 27 ستمبر کو جواب طلب کر لیا۔