لاہور: (خاور نیازی) لباس سازی کے خام مال کیلئے عام طور پر تین ذرائع استعمال ہوتے ہیں، سب سے بڑا ذریعہ کپاس اور اون ہے جو انسانی سرگرمیوں کی مدد سے حاصل ہوتا ہے، دوسرا ذریعہ مختلف کیمیائی مادوں سے مشینوں پر تیار کردہ مصنوعی ریشہ ہے جسے عام طور پر فائبر کہا جاتا ہے
تیسرا ذریعہ نہ تو انسانی ہاتھوں کا مرہون منت ہے اور نہ ہی مشینوں کا محتاج ہے، بلکہ یہ ایک کیڑے کی محنت کا نچوڑ ہے، جسے ریشم کا کیڑا کہتے ہیں، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لباس سازی کا یہ ذریعہ دنیا کے مہنگے ترین کپڑے کا ذریعہ ہے۔
ریشم کا کیڑا بنیادی طور پر ایک پالتو کیڑا ہوتا ہے، ویسے تو جنگلی ریشم کے کیڑے بھی پائے جاتے ہیں لیکن مناسب اور مطلوبہ دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ معیاری ریشم بنانے کے قابل نہیں ہوتے، زیادہ تر عالمی ریشم کی فراہمی گھریلو ریشم کے کیڑوں سے آتی ہے، ریشم کے کیڑے عام طور پر سفید شہتوت کے پتے بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔
بعض اوقات یہ مالٹے کی ایک مخصوص قسم کے درخت کے پتے بھی شوق سے کھاتے ہیں لیکن سب سے اعلیٰ قسم کا ریشم شہتوت کے پتوں پر رہنے والے لاروا کا ہوتا ہے جنہیں تجارتی مقاصد کیلئے پالا جاتا ہے، یہ کیڑا 300 سے 900 میٹر لمبے ریشے کے ساتھ اپنا کوکون بناتا ہے، ریشم کی پیداوار کے مقصد کیلئے ریشم کے کیڑوں کی افزائش اور پرورش کے عمل کو ’’سیریکلچر‘‘ کہتے ہیں۔
ریشم بنیادی طور پر دو عناصر فائبر اور سیریسن سے مل کر بنتا ہے، ریشم کا 75 سے 90 فیصد حصہ فائبر پر مشتمل ہوتا ہے، جس کا قطر 0.0004 انچ ہوتا ہے جبکہ باقی 10 سے 25 فیصد حصہ سیریسن سے بنا ہوتا ہے جسے ریشم کا کیڑا کہتے ہیں جو ریشوں کو ایک کون میں چپکاتا ہے، پالتو ریشمی کیڑے اپنی افزائش کا انحصار زیادہ تر انسانوں پر کرتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ انسان صدیوں سے ریشم کے کیڑے خود پالتے آ رہے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں جنگلی ریشم کیڑے نسلی اعتبار سے الگ ہوتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے ان کا بنایا ہوا ریشم غیر معیاری ہوتا ہے۔
ریشم کے کیڑے بنیادی طور پر انتہائی حساس اور نازک ہوتے ہیں اور انہیں پالنے والے افراد کو اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ ہر تیسرے دن سوکھے ہوئے پتے اور دیگر فضلہ صاف کریں، ایسا نہ کرنے سے ان پر فنگس سمیت متعدد بیماریاں حملہ آور ہو کر پیداوار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، یہ کام اتنا سہل نہیں کیونکہ ان کی حفاظت کیلئے ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے، بیماریوں کے ساتھ ساتھ ان کیڑوں کو چھپکلی، چمگادڑ، چیونٹی اور دیگر زمینی جانداروں سے بھی بچانا ہوتا ہے۔
ریشم بنتا کیسے ہے؟
ریشم کی پیداوار کیڑوں کے انڈوں سے شروع ہوتی ہے، جو عام طور پر خصوصی طور پر ایلومینیم یا کسی اور مٹیریل سے بنائے گئے باکسز میں ہوتی ہے، ریشم کی مادہ عام طور پر 300 سے 500 انڈے دیتی ہے، چند دن بعد ان انڈوں سے لاروا یا ’’کیڑپلر‘‘ نکلتا ہے جسے عرف عام میں ریشم کا کیڑا کہا جاتا ہے، لاروا عام طور پر شہتوت کے پتے کھاتا ہے، کھانے کے دوران لاروا چار مرتبہ اپنی جلد بدلتا ہے، یہ اپنے ابتدائی وزن سے 50 ہزار گنا زیادہ شہتوت کے پتے کھاتا ہے۔بالغ ریشم کے کیڑے تقریباً تین انچ تک لمبے ہوتے ہیں اور انڈوں سے نکلنے کے بعد ان کا وزن 10 ہزار گنا زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔
6 ہفتے کے بعد ایک ریشم کا کیڑا ریشم بنانا شروع کر دیتا ہے، جب یہ کیڑا ایک مرتبہ ریشم بنانا شروع کر دیتا ہے تو یہ رکتا نہیں ہے، ماہرین کے مطابق یہ ایک منٹ کے اندر دس سے پندرہ انچ دھاگہ بناتا ہے، یہ کیڑا دو دن اور دو راتوں کے درمیان 5 ہزار فٹ لمبا دھاگہ تیار کر چکا ہوتا ہے، دو یا تین دن کے بعد یہ اپنے آپ کو مکمل طور پر کوکون ( کوکون ریشم کے کیڑوں کے خول یا اس کے ’’گھروندے‘‘ کو کہتے ہیں جس کے اندر یہ ریشم سازی کرتا ہے) میں بند کر لیتا ہے، اپنے آپ کو کوکون میں بند کرنے کے پس پردہ یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ، ہوا میں ابتدائی ریشم فوراً سخت ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ ہر کوکون میں قابل استعمال معیاری ریشم کی مقدار انتہائی قلیل ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پاؤنڈ خام ریشم کم ازکم دو سے تین ہزار کیڑے مل کر بناتے ہیں، ایک مقررہ مدت کے بعد ریشم کے کیڑے اپنے اینزائمز کے ذریعے سوراخ کر کے کوکون سے باہر نکل آتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ یہ کیڑے اپنے اینزائم سے ریشم کو خراب کرنا شروع کر دیں، ان کوکون کو گرم پانی میں رکھ دیتے ہیں جس سے یہ کیڑے مر جاتے ہیں اور کوکون کو برش وغیرہ سے صاف کر کے ریشم کو الگ کر لیا جاتا ہے، ایک کوکون میں لگ بھگ ایک ہزار گز ریشم ہوتا ہے، ریشم کی اس حالت کو ’’خام ریشم‘‘ کہا جاتا ہے۔
ریشم کی تاریخ
ریشم کی تاریخ بارے ماہرین اگرچہ ابھی تک یک سو نہیں ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ ریشم کو سب سے پہلے متعارف کرانے میں چین کا کردار سب سے نمایاں ہے، بیشتر شواہد کے مطابق چین میں ریشم 6 ہزار قبل مسیح اور 5 ہزار قبل مسیح کے دوران دریافت ہوا تھا، جس کا سہرا چینی شہنشاہ ژی لنگ شی کے سر جاتا ہے۔
2007ء میں محکمہ آثار کے ماہرین کو چینی صوبہ ژیانگ ژی کے ایک مقبرے سے انتہائی پیچیدگی سے بنا ریشم کا ایک کپڑا دریافت ہوا تھا، جس کے بارے یہ قیاس کیا گیا کہ یہ 2500 سال قبل ژہو ڈائنا سٹی کے وقت بنایا گیا تھا، اس کے علاوہ ماہرین کو 1070ء قبل مسیح مصر میں ایک ایسی ممی دریافت ہوئی تھی جس کی تیاری میں ریشم کے دھاگے کو استعمال کیا گیا تھا۔
ریشم کے کیڑے کی دریافت شدہ قدیم ترین مثال 3639 قبل مسیح میں حنان شہر سے بھی ملتی ہے جبکہ شانگ خاندان کے دور میں 1046 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح کے دوران ریشم کے کیڑے پالنا باقاعدہ طور پر رواج پا چکا تھا، ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ 400 قبل مسیح سے چین سے بذریعہ شاہراہ ریشم، ریشم کی برآمد شروع ہو چکی تھی، جاپان میں ریشم کی کاشت 300 عیسوی تک پھیل چکی تھی، 520 عیسوی تک یورپ اور عرب کے بیشتر علاقوں میں بھی ریشم کی پیداوار رواج پا چکی تھی۔
چین اس وقت تک ریشم پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن سے تجاوز کر چکی ہے، اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکیلا چین اس وقت دنیا کا 78 فیصد ریشم پیدا کر رہا ہے، بھارت 30 ہزار میٹرک ٹن ریشم پیدا کر کے اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو کل عالمی پیداوار کا 12 فیصد ریشم پیدا کرتا ہے، باقی 10 فیصد ریشم ازبکستان، برازیل شمالی کوریا، تھائی لینڈ اور پاکستان پیدا کر رہے ہیں۔
ریشم کی پیداوار کے لحاظ سے چین کے صوبہ جیانگ سونگ، جے ژیانگ اور سی چھوان سرفہرست ہیں، کہا جاتا ہے کہ چین کے یہی علاقے بنیادی طور پر ریشم کو متعارف کرانے والے علاقے ہیں، تاریخی حوالوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انہی علاقوں کے لوگ ریشم کے کپڑے کو بھی بطور لباس متعارف کرانے والے لوگ ہیں اور یہیں سے ریشم دنیا کے دوسرے علاقوں میں پھیلا، چین کے شہر سوجو ، ہانگ جو ، ناں جنگ اور شاوشنگ ریشم کے سب سے بڑے صنعتی شہر ہیں۔
خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔