لاہور: (حافظ بلال بشیر) معمر افراد کا عالمی دن دنیا بھر میں یکم اکتوبر کو منایا جاتا ہے، یہ خوش آئند ہے اور یقیناً اقوام عالم کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم اپنے بزرگوں، معمر افراد کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی خدمات کے اعتراف ہی کی وجہ سے اس دن کو منانے کا فیصلہ 1990 ء میں اقوام متحدہ کی ایک قردار میں کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد معمر افراد کی ضروریات، مسائل اور تکالیف سے معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا اور لوگوں کی توجہ بوڑھے افراد کے حقوق کی طرف دلانا ہے۔
دنیا میں انسانیت کی بقاء دو رشتوں کو قرار دیا گیا اور ان دو رشتوں کو ماں اور باپ کہا جاتا ہے، ہر دور میں ان رشتوں کی محبت، خدمت اور احساس کا جذبہ غالب رہا ہے خصوصاً جب یہ دو رشتے عمر کے آخری حصے میں پہنچ جائیں، تو ان کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے، ایک مسلمان کیلئے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کے بڑھاپے اور کمزوری کے زمانے میں ان کی خوب خدمت کی جائے اور ان کے مکمل اخراجات اٹھائے جائیں اور یہی چیز اُس کیلئے جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے،ان کی خدمت اور اخراجات میں غفلت اور کوتاہی سے کام لینا جنت سے محرومی کا ذریعہ ہے۔
دین اسلام میں اس بات کی سختی سے تاکید کی گئی اور یہ دعا بھی سکھلائی گئی کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘(سورہ بنی اسرائیل)، قرآن کریم کے اس حکم میں اولاد کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسے والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے، دنیا بھر میں معمر افراد کیلئے انسانوں کے مختلف رویے پائے جاتے ہیں، آئیے مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند، عرب دنیا و تمام مسلم ممالک میں تقریباً 95 فیصد بوڑھے والدین و دیگر معمر افراد کا خیال رکھا جاتا ہے، اولڈ ایج ہوم(ہاسٹل)میں بزرگوں کی تعداد کُل آبادی کا بمشکل 2 فیصد ہے جبکہ مغربی ممالک میں یہ تعداد تقریباً 40 فیصد ہے، بوڑھے والدین اور معمر افراد کو اولڈ ایج ہوم(ہاسٹل) میں بھیج دیا جاتا ہے، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی چاہت ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کے درمیان رہے، اولاد اور اولاد کی اولاد کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
ایسے معمر افراد جو ان ہاسٹلوں میں آ جاتے ہیں ان کی اپنی اولاد کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی خواہش ایک حسرت بن جاتی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں رواں سال ایسے 37 ہزار افراد کا انتقال ہوگیا جو تنہا رہتے تھے، سیکڑوں لاشیں مہینوں بعد ملی، ان 37 ہزار میں تقریباً تیس ہزار افراد عمر رسیدہ تھے، جاپان کی پچاس فیصد آبادی ساٹھ سال سے زائد عمر والوں کی ہونے والی ہے۔
معمر افراد کی آبادی کا اس حد تک بڑھ جانا حکومت کیلئے بھی ایک چیلنج بن رہا ہے، اسی وجہ سے جاپان میں حکومت کی طرف سے اب ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ تیسرے بچے کی ولادت پہ وظائف وغیرہ کی بڑھوتری ہوگی۔
معمر افراد کے حوالے سے دنیا بھر سے الگ الگ نوعیت کے بھیانک حقائق ہیں، کینیا کے علاقے کلیفی ساحل پر ہر ہفتے کم از کم اپنے خاندان کے ایک بزرگ کو جادو ٹونے کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، جن بزرگوں کی حفاظت اور خدمت کرنی چاہیے انہیں ہی نشانہ بنایا جاتا ہے، اب وہاں کے لوگ اپنے بالوں کی سفیدی کو کالا رنگ لگا کر دوبارہ کالا کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2023ء میں دنیا بھر میں معمر افراد کی تعداد 98 کروڑ دس لاکھ تھی جبکہ 2050 تک دنیا بھر میں یہ تعداد دو ارب ہو جائے گی، ایک طرف بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف ان کی صحت، خوراک، حفاظت اور کئی دیگر مسائل کا سامنا ہے، یہ سُن کر ہی رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کئی ممالک میں تو اپنی مرضی سے باقاعدہ طور پر خودکشی کیلئے مراکز بنے ہوئے ہیں جیسا کہ سوئٹزر لینڈ میں، ان مراکز میں اپنی زندگی کے خاتمے کیلئے آنے والوں کی 90 فیصد تعداد بزرگوں کی ہوتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور تمام ترقی یافتہ ممالک میں ہر قسم کی سہولیات، آسائشیں تو بزرگ شہریوں کیلئے فراہم کی جاتی ہیں لیکن بزرگ افراد کا اصل سکون، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، اُن کے بچے ان کے قریب رہ کر بھی بہت دور چلے جاتے ہیں، معمر افراد انسانی سماج کا عضو معطل یا اس کیلئے بارِگراں یا زمین کا بوجھ نہیں ہیں بلکہ وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں اور ہر اعتبار سے انسانی تکریم کے مستحق ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نو دنیا بھر میں والدین، بزرگوں اور سماج میں موجود تمام معمر افراد کے ساتھ ہمدردی اور محبت و تعلق کا ایسا نمونہ پیش کریں، جس سے خوشگوار فضا قائم ہو اور آنے والی نسل ذہنی وفکری طور پر اپنے بزرگوں کی خدمت کیلئے خوش دلی سے آمادہ رہے۔
حافظ بلال بشیر نوجوان لکھاری ہیں، ان کے مضامین مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔