لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کو ایک مہینہ مکمل ہونے کو ہے، 24 نومبر کے اس احتجاج سے ریاست کو کس حد تک نقصان اٹھانا پڑا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اگر کہا جائے کہ تحریک انصاف کا 24 نومبر کا احتجاج حکومت کو کمزور کرنے کی ایک کوشش تھی تو غلط نہ ہو گا، وہ لوگ جنہوں نے 24 نومبر کو طاقت دکھانے کا فیصلہ کیا وہ ا پنی سیاسی خواہشات میں اندھے ہو کر ریاست کے مؤقف سے نظریں چرا رہے تھے، شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’نیا پاکستان‘‘ صرف کھوکھلے نعروں سے ہی تعمیر ہو جائے گا، یہ سب کچھ ایک گروہ کی جانب سے کیا جارہا تھا جو اپنے لیڈر یعنی سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کررہا تھا۔
یہ سب کچھ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے شروع کیے گئے پرتشدد مظاہروں کی بدولت تھا، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کس طرح احتجاج اور عوامی مظاہروں کو مسلسل سیاسی چالبازی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
24 نومبر کا احتجاج عمران خان کے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد مزاحمت کا ہی تسلسل تھا جب انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں کامیاب ہونے پر عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے خالی کاغذ لہرا کر سائفر کا دعویٰ کیا تھا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا:
26 نومبر کے احتجاج میں ملک کی عالمی حیثیت کو مجروح کرتے اور افراتفری پھیلاتے ہوئے سوشل میڈیا کو ایک بار پھر ریاست اور حکومت کیخلاف سوچے سمجھے طریقے سے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا، احتجاج سے پہلے اور اس کے دوران سوشل میڈیا ایپلی کیشنز اور یوٹیوب وی لاگز پر جو کچھ ہوا وہ ناگوار تھا تو بعد میں ہونے والی پیش رفت ریاست مخالف ہی تھی ۔
مثال کے طور پر حماد اظہر جیسے صارفین نوجوانوں کو اس بات پر اکساتے رہے کہ وہ ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس احتجاج کےد وران وہ خود کس کونے کھدرے میں چھپے بیٹھے تھے ؟
ہلاکتوں بارے متضاد دعوے:
یہ تاثر بھی پایا گیا کہ ڈی چوک میں جو کچھ ہوا واقعات کا صحیح انکشاف ابھی تک واضح نہیں ہے، احتجاج کے دوران ہلاکتوں سے متعلق پی ٹی آئی کی جانب سے متضاد دعوے سامنے آئے حقیقت کیا ہے یہ واضح ہی نہیں ہے ،اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیےپی ٹی آئی کے سوشل میڈیا صارفین نے ایسی تصاویر اور ویڈیوز کو شیئر کرنا شروع کر دیا جن کا حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔
مثال کے طور پر جناح ایونیو کو خون میں ڈھکا دکھانے کا دعویٰ کرنے والی تصاو شیئر کی گئیں جو کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی تھیں، ان تصاویر سے احتجاج کے دوران کی صورتحال واضح کرنے کی کوشش کی گئی، اس طرح حقائق کی گمراہ کن نمائندگی کرتے ہوئے حقیقی واقعات کے سیاق و سباق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ۔
ایک اور افسوسناک مثال ہے کہ چند یوٹیوبرز نے احتجاج کے دوران ہلاکتوں کو یقینی بناتے ہوئے غزہ کی پٹی کی ایک تصویر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیانیہ کے طور پر پیش کیا ۔
احتجاجی مظاہرین کی مخصوص ذہنیت:
دعویٰ کیا گیا کہ یہ اسلام آباد میں رونما ہونے والی تمام ہولناکیوں کا ایک اور ثبوت ہے لیکن آن فیلڈ رپورٹرز سے اس بارے پوچھا گیا تو فائرنگ یا ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے بہت کم قابل اعتماد ثبوت نظر آتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کے دوران ہلاک ہونیوالوں کی فہرست تیار کی گئی اس کو تیار کرنے میں بھی تین ہفتے کا وقت لیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان ریکارڈ پر کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ جمہوریت کی بنیاد اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب وہ جمہوریت کی پلیئنگ الیون کا حصہ نہ ہوں، ان کے حامیوں کا بھی یہی حال ہے ان کا بھی یہی خیال ہے کہ عمران خان نہیں تو کچھ نہیں، اسی ذہنیت کا منظر امریکا میں بھی دیکھا گیا تھا جب ٹرمپ کے حامیوں نے اپنے لیڈر کی شکست کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تھا کیو نکہ وہاں بھی اسی ذہنیت کا ایک فرقہ تیار ہو چکا تھا۔
احتجاج سے ہونیوالے نقصانات:
اب اگر احتجاج کے نقصانات پر ایک نظر ڈالی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث اسلام آباد میں قانون سازی اور انتظامی کاموں میں شدید خلل پڑا۔
معاشی نقصان:
اسٹیٹ بینک کی طرف سے بھی کہا گیا کہ حالیہ معاشی بحالی پر سیاسی بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کے منفی مرتب ہوئے، میکرو اکنامک اشاریوں میں کچھ بہتری کے باوجود معیشت ساختی رکاوٹوں سے دوچار ہے۔
مرکزی بینک کی جانب سے مزید کہا گیا کہ سیاسی غیر یقینی صورتحال معاشی پالیسیوں میں عدم مطابقت، کمزور طرز حکمرانی اور عوامی انتظامیہ کی وجہ سے صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے، یہ درمیانی سے طویل مدت تک پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی اصلاحات کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ اپوزیشن کے احتجاج سے روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، احتجاج کی وجہ سے جی ڈی پی کو 144 ارب کا روزانہ نقصان ہوتا ہے جبکہ آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
عالمی سطح پر ملکی ساکھ کو نقصان:
حکومت کی جانب سے مظاہرین کو بیلاروس کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے طے شدہ دورے کی روشنی میں احتجاج مؤخر کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے ایک نہ سنی جس سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
احتجاج کے باعث چین کے وفود نے بھی اپنے دوروں کو کم کر دیا، جس سے ایک پارٹنر کے طور پر پاکستان کے قابل اعتماد ہونے کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے، پی ٹی آئی کی تباہ کن سیاست کا ایک اہم منفی نتیجہ سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچنا ہے، یہ ہنگامہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک خطرناک مہنگے جوئے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
مقامی سرگرمیاں معطل:
احتجاج کے باعث لاجسٹکس جیسے اہم شعبوں میں آمدنی میں کمی کا سلسلہ جاری ہا ، سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں 50 فیصد سے زیادہ کمی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں تجارتی سرگرمیاں معطل ہو کررہ گئیں جس کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی قلت اور عارضی مہنگائی نے عام شہریوں کو پہلے ہی مشکل وقت کا سامنا کرنے کی سزا دی۔