زنا کے الزام میں گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت پر آئی جی پنجاب دوبارہ طلب

Published On 20 January,2025 03:15 pm

لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ نے زنا کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی درخواست ضمانت پر اٹارنی جنرل،ایڈووکیٹ جنرل ،پراسیکیوٹر جنرل اور آئی جی پنجاب کو دوبارہ ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے کیس کی سماعت کی ، فل بنچ میں جسٹس فارق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ بھی شامل تھے، عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق ،پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ اور آئی جی پنجاب سمیت ایف آئی اے کے افسران بھی پیش ہوئے ۔

دوران سماعت چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کو بلایا تھا وہ کیوں نہیں آئے، یہ پورے ملک کا معاملہ ہے اٹارنی جنرل کو پیش ہونا چاہیے تھا جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے عدالت کو بتایاکہ جب سے اینٹی ریپ ایکٹ بنا ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹرڈ ہوئے ۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک ریپ ہو رہا ہے، ہم تو آپ کے حساب سے بھارت سے آگے نکل گئے ہیں ، بھارت تیسرے نمبر پر ہے وہاں ہر پندرہ منٹ میں ریپ ہو رہا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ یہ سب کیسز ریپ کے نہیں ہیں،پنجاب کے ہر سنٹر میں ایسے کیسز کے لیے خواتین تعینات ہیں ، میڈیکل آفیسر اور باقی کو ٹریننگ کروائی جا رہی ہے، جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے، عدالتی احکامات پر بہت سی خامیاں دور کی گئی ہیں ،میڈیا میں ایسے بات آ رہی ہے کہ پاکستان میں ریپ کیسز بہت ہی زیادہ ہیں، رپورٹ میں کارروائی کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس میں کہا کہ جن لوگوں نے جھوٹے ریپ کے مقدمات درج کرائے انکے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ کے مطابق ریپ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں ، اس کے بعد منشیات اور قتل کے مقدمات ہیں، اینٹی ریپ ایکٹ مکمل طور پر نافذالعمل نہیں ہے، اینٹی ریپ ایکٹ کی تین سٹیجز ہیں، کیس کو فائل کرنے سے پہلے اینٹی ریپ ایکٹ کو پڑھ لینا چاہیے۔

جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ 30 فیصد ریپ کے جھوٹے کیسز درج کرائے گئے، جینڈر بیسڈ وائلنس کیس کی تحقیقات کے لیے پرفارما میں ٹراما کا کالم شامل کریں، آئی جی پنجاب نے ریپ کیسز کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے، جرائم کو ہم سب نے مل کر ہی ختم کرنا ہے، ان کیسز کی تفتیش کے لیے آفیسرز کی بہترین ٹریننگ کی ضرورت ہے۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ 17 سکیل سے کم سکیل کا کوئی پولیس افسر ان کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپکی رپورٹ کے مطابق ریپ کے بڑھتے واقعات ہمارے لیے الارمنگ ہیں جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ کہاکہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ریپ کیسز کو مکمل طور پر قانون کے مطابق ڈیل کریں۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی کی مدد سے ورچوئل پولیس اسٹیشن قائم کر دیا گیا ہے ، ریپ سے متاثرہ خاتون ای میل، کال یا واٹس ایپ کے ذریعے شکایت درج کرا سکتی ہیں، 2100 خواتین کو بھرتی کیا گیا ہے جن کی سپیشل ٹریننگ کرائی گئی ہے، 880 تفتیشی افسران بھرتی کئے گئے ہیں جن کی کم از کم تعلیم گریجوایشن ہے، ایک تفتیشی افسر ایوریج 53 کیسز کو ڈیل کرتا ہے۔

جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیئے کہ رولز میں کچھ ترمیم کی بھی ضرورت ہے ، ایڈووکیٹ جنرل حکومت کے علم میں لائیں، آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ایف آئی اے سب مل کر بیٹھ جائیں رولز میں کمی کوتاہی کو دور کریں۔

بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل،ایڈووکیٹ جنرل ،پراسیکیوٹر جنرل اور آئی جی پنجاب کو 10فروری کو دوبارہ طلب کرلیا۔