لاہور: ( محمد اشفاق ) لاہور ہائیکورٹ نے سموگ کے تدارک کے لیے محکمہ ماحولیات سمیت دیگر محکموں سے عمل درآمد رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کر لی۔
جسٹس شاہد کریم نے قرار دیا کہ ماحولیاتی آلودگی ، فضائی آلودگی اور پانی کی آلودگی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں، جب کہ ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اقدامات قابل ستائش ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ کے تدارک کے لیے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت ماحولیاتی کمیشن کے نمائندے، سرکاری وکیل اور ماحولیات سمیت دیگر محکموں کے آفیسر پیش ہوئے۔
ممبر ماحولیاتی کمیشن نے کہا انڈسٹریز یونٹس کے خلاف اربن یونٹ کی کارروائی کی رپورٹ ہمارے پاس آئی تھی، ہم اور محکمہ ماحولیات اربن یونٹ کی رپورٹ کا اپنی رپورٹ کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔
ایل ڈی اے کے وکیل نے ٹھوکر و دیگر علاقوں میں ٹریفک کی بہتری سے متعلق اقدامات کی رپورٹ پیش کی اور کہا کہ 258 ملین کے ساتھ ٹھوکر پر ٹریفک کی روانی بہتر کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی ہے۔
وکیل ایل ڈی اے نے بتایا کہ ملتان روڈ پر ٹریفک کا باعث بننے والے یوٹرنز کو بند کیا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ حکومت ٹریفک کے معاملے پر کافی سنجیدہ نظر آ رہی ہے، پانچ منٹ ٹریفک جام رہنے سے گاڑیوں کے دھویں سے آلودگی بڑھتی ہے، ڈی جی ایل ڈی اے اس حوالے سے کافی کام کررہے ہیں جو قابل ستائش ہے۔
دوران سماعت صاف پانی کو بچانے کے لیے اقدامات کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ واسا نہ میٹر لگا پا رہا ہے، نہ سروس سٹیشن کو چیک کر پا رہا ہے، جب تک واٹر میٹر نہیں لگیں گے لوگ اس وقت تک پانی کے ضیاع سے باز نہیں آئیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ واسا کو واٹر میٹر لگانے کی کوئی ٹائم لائن عدالت میں جمع کروانی چاہئے، واٹر میٹر کا آغاز کمرشل صارفین سے ہونا چاہئے، اگر چائنیز یہ کام نہیں کر رہے تو آپ لوکل سطح پر ان میٹرز کو کیوں نہیں بنا رہے؟۔
ممبر ماحولیاتی کمیشن نے کہا محکمہ واسا کے ایس ڈی او اور ایکسیئن کو پانی کے ضیاع کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ایل ڈی اے کو تمام پراجیکٹس میں پیدل چلنے والوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
ممبر ماحولیاتی کمیشن نے سکول ایجوکیشن رولز میں ترمیم کے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ مرلہ سے کم اور دو ہزار سے کم فیس والے سکولوں کو بسوں سے استثنیٰ ہونا چاہئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس یہ اختیار ہونا چاہئے کہ کس سکول کواستثنیٰ دینا ہے کس کو نہیں۔
ممبر ماحولیاتی کمیشن نے کہا اگر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو اختیار دے دیا جائے تو وہ اس کا غلط استعمال کریں گے، سرکاری وکیل نے بتایا کہ چار ہزار روپے سے کم فیس والے سکولز کو بھی بسوں سے استثنیٰ دینے جا رہے ہیں، بسوں سے متعلق جو سکول خلاف ورزی کرے گا اس کو 50 ہزار جرمانہ کیا جائے گا۔
سرکاری وکیل نے سکولز بسوں کے حوالے سے مجوزہ رولز پیش کردیئے، عدالت نے کہا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ترمیم ایک اچھا آغاز ہے، ہمیں اسے اور آگے لے کر جانا چاہئے، اگر کسی کو شکایت ہو تو اسے سننے کے لئے کونسل ہونی چاہئے۔
ممبر ماحولیاتی کمیشن نے کہا سکولوں میں پیرنٹس کونسل موجود ہیں، والدین اس لئے شکایت نہیں کرتے کہ کہیں سکول والے ان کے بچوں کو نکال ہی نہ دیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ 16 سروس سٹیشنز کا وزٹ کیا جن کا ری سائیکلنگ کا سسٹم آپریشنل نہیں تھا، جس پر عدالت نے کہا کہ جب ان لوگوں کو پانی کا بل آئے گا تب یہ ری سائیکلنگ سسٹم استعمال کریں گے۔
عدالت نے واسا کو واٹر میٹر لگانے کے لئے ٹائم فریم دینے اور واٹر میٹر نصب کرنے کا آغاز کمرشل صارفین سے کرنے کا حکم دے دیا، کیس کی مزید سماعت 24 جنوری کو ہوگی۔