وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش کردیا

Published On 29 January,2025 11:21 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش کردیا۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

وکیل وزارت دفاع کے دلائل

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ جج، ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی۔

انہوں نے استدلال کیا کہ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق تین کا کیس عدالت کے سامنے نہیں ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے، اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کر لے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے؟

ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے: جسٹس جمال خان مندوخیل

وکیل وزارت دفاع نے مؤقف اپنایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھ دیا جائے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور ہے، جب رٹ میں ہائی کورٹس میں اپیل آتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔

ملٹری ٹرائل میں سکیورٹی وجوہات کے باعث رشتہ داروں، صحافیوں کو رسائی نہیں دی جاتی: وکیل

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے؟ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔

جسٹس محمد علی مظہر سوال اٹھایا کہ اگر ٹرائل میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو کیا اپیل میں اس غلطی کی نشاندہی کی وجہ سے ملزم کو فائدہ ملتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس کی تمام پہلو دیکھے جاتے ہیں۔

زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے: جسٹس مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا رٹ میں اتنا اختیار ہے کہ پروسیجر کو دیکھا جائے کہ اسے مکمل فالو کیا گیا یا نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ تمام پروسیجر فالو ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رٹ میں کوئی ایسی اتھارٹی تو ہو جو پروسیجر کو دیکھ سکے اور اسکا جائزہ لے، زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے، جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلاتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اپیل میں اپیل کنندہ کو کیا مکمل موقع دیا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ رولز 63 میں ملٹری کورٹ کے پرائزئڈنگ آفیسر کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور شفاف ٹرائل کا موقع دینا اسکی ذمہ داری میں شامل ہے، حلف لینے کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرتے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹ کے جو پرائزئڈنگ افسر ہوتے ہیں کیا وہ مکمل تجربہ کار ہوتے ہیں یا کسی کو بھی یہ ذمہ داری دے دی جاتی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تجربہ ضروری نہیں لیکن ملٹری ایکٹ پر عبور رکھتے ہوں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پہلے مجسٹریٹ اور کمشنر وغیرہ بھی ٹرائل کرتے تھے تو قتل کیس میں سزا دی جاتی تھی، جب کہا جاتا تھا کہ اس میں شہادتیں نہیں تو سزا کیسی تو کہا تھا جاتا قتل تو ہوا ہے، پروسیجر اور شفاف ٹرائل کا موقع تو فراہم ہونا چاہیے۔

ہمارا ملک اتنا ٹرینڈ ہوچکا کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ بیٹھ کر غلط کہہ دیتے ہیں: جسٹس مندوخیل

خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والوں کو اسکی کوئی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، انہوں نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں کہ یہ قصور وار ہے کہ نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آجکل ہمارا ملک اتنا ٹرینڈ ہوچکا ہے کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو لوگ بیٹھ کے کہتے ہیں کہ غلط ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سوشل میڈیا کی تو بات نہ کریں وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بیٹھ کر اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ان کا کام ہے انکو کرنے دیں ہمیں انکی ضرورت نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ افسوس ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے میں ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کہ وجہ سے سوال کرتی ہوں لیکن افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا گیا، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش کردیا، ملٹری ٹرائل کی سات کاپیاں آئینی بنچ کے ساتوں ججز کو دی گئیں۔

وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے، ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں، کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ تو اپیل میں دیکھا جانا ہے، ہمارے لیے اپیل میں اس ریکارڈ کا جائزہ لینا مناسب نہیں، ہم ٹرائل کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

آئینی بنچ کے 6 ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کر دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریکارڈ دیکھنے کے بعد واپس کیا تاہم جسٹس مسرت ہلالی پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لے رہی ہیں۔

خواجہ حارث نے آرٹیکل 14 کا حوالہ دیا اور کہا کہ جسٹس عائشہ ملک نے اپنی ججمنٹ میں ایک پوائنٹ سے اختلاف کیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تمام سیکشنز پی پی سی کے نیچے آتی ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان صاحب کا نام میٹر نہیں کرتا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ وہ چشم دید گواہ بھی نہیں ہیں۔

میرے ذہن میں جو سوال بنتا ہے وہ میں کروں گی کسی کو اچھا لگے یا برا: جسٹس مسرت ہلالی

خواجہ حارث نے کہا کہ 9 ملزمان میں سے 4 چشم دید گواہ ہیں، آپ اتنی تفصیل سے ملٹری کورٹس کی دستاویزات دیکھ رہی ہیں اور ایسے سوالات اٹھا رہی ہیں، کل کو اپیل آپ کے پاس آنی ہیں، آپ کو کیس کے میرٹ سے متعلق سوال نہیں پوچھنے چاہئیں کہ یہ معاملہ ابھی آپ کے پاس اپیل میں آنا باقی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے ذہن میں جو سوال بنتا ہے وہ میں کروں گی کسی کو اچھا لگے یا برا۔

بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔