متوازن آبادی کی منصوبہ بندی: پاکستان کی خوشحالی کا راستہ

Published On 23 February,2025 03:39 pm

لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان جو کہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے انتظام میں اہم چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔

1953 سے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت کو فروغ دینے کیلئے کام کر رہا ہے، اگرچہ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن ثقافتی، مذہبی اور معاشی رکاوٹیں اب بھی ان کوششوں میں حائل ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جو تعلیم، صحت، معاشی ترغیبات اور کمیونٹی کی شمولیت کو مربوط کرے۔

پائیدار آبادی کا انتظام اقتصادی استحکام، سماجی ترقی اور آنے والی نسلوں کیلئے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے ناگزیر ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادیوں میں شامل ہے، جس کے مؤثر انتظام اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، پنجاب کی آبادی 12.76 کروڑ ہے اور شرح نمو 2.54 فیصد ہے، جسے 2030 تک 1.2 فیصد تک کم کرنے کا ہدف ہے۔

پنجاب میں شرحِ پیدائش 2017 میں 3.7 تھی، جو 2024 میں کم ہو کر 3.5 ہوگئی، جو چھوٹے خاندانوں کی طرف مثبت رجحان ظاہر کرتی ہے۔

شادی شدہ خواتین (15-49 سال) میں مانع حمل کے استعمال کی شرح 2017 میں 34.4 فیصد تھی، جو 2024 میں بڑھ کر 40.1 فیصد ہوگئی، جو آگاہی اور سہولتوں کی بہتری کو ظاہر کرتی ہے، خاندانی منصوبہ بندی کی غیر پوری شدہ ضرورت 2017 میں 17.8 فیصد تھی، جو 2024 میں 16.7 فیصد تک کم ہوگئی، لیکن مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نوجوان (15-49 سال) پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، جن کیلئے مخصوص تولیدی صحت کے اقدامات ضروری ہیں، پاکستان کم عمری میں حمل کے حوالے سے دنیا کے سرفہرست 7 ممالک میں شامل ہے، جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی سے کم عمری کی شادیوں اور غیر محفوظ اسقاطِ حمل کو روکا جا سکتا ہے، حمل میں تاخیر ماں کی صحت، بچے کی فلاح و بہبود اور صنفی مساوات کو بہتر بناتی ہے، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نوجوانوں میں تولیدی صحت کی آگاہی پھیلانے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

پدرشاہی رویے خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی سے روکتے ہیں، مردوں کی شمولیت ضروری ہے، خاندانی فیصلوں میں ساس کا کردار اہم ہوتا ہے، اس لئے پورے خاندان کو آگاہی دینا ضروری ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذہبی غلط فہمیاں مانع حمل کے استعمال میں رکاوٹ بنتی ہیں، اس لئے مذہبی رہنماؤں کو شامل کر کے درست معلومات پھیلانے کی ضرورت ہے، خاندانی منصوبہ بندی کو زچہ و بچہ صحت کی خدمات میں ضم کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی قبولیت میں اضافہ ہو۔

معاشی عدم استحکام بڑے خاندانوں کی طرف مائل کرتا ہے، مالی مسائل کو حل کر کے بچوں میں وقفہ دینے کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے، صحت مراکز، فارمیسیز اور کمیونٹی ورکرز کے ذریعے مانع حمل اشیاء تک آسان رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

مردوں کی تولیدی صحت سے متعلق مباحثوں میں شمولیت خاندانی منصوبہ بندی کو مؤثر بنا سکتی ہے، مالی خودمختاری خواتین کو تولیدی فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہے، سکولوں اور خواندگی کے پروگراموں میں تولیدی صحت کی تعلیم کو شامل کرنا اہم ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سوشل میڈیا مہمات، واٹس ایپ چیٹ بوٹس اور نوجوانوں کے سیمینارز سے شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے، مذہبی اور کمیونٹی رہنماؤں کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی ترویج کرنی چاہیے۔

خواتین کیلئے تکنیکی تربیت بڑے خاندانوں پر انحصار کم کر کے بہتر تولیدی فیصلے کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، ڈیجیٹل کلائنٹ ٹریکنگ سسٹم سروس ڈیلیوری، سپلائی مینجمنٹ اور احتساب کو بہتر بنا سکتا ہے۔

پاکستان میں آبادی کے اضافے کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کیلئے تعلیم، صحت، ثقافتی قبولیت اور تکنیکی ترقی کا امتزاج ضروری ہے، نوجوانوں، مذہبی رہنماؤں اور کمیونٹی کی شمولیت کے ذریعے پاکستان پائیدار ترقی اور بہتر عوامی صحت کے اہداف حاصل کر سکتا ہے۔