لاہور: (محمداشفاق) لاہور ہائیکورٹ میں ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے کیس کی سماعت، جسٹس طارق سلیم شیخ نے قراۃ العین افضل ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ اورڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ سمیت عدالتی معاون بیرسٹر حیدر رسول مرزا پیش ہوئے۔
دوران سماعت عدالت کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے بتایاکہ پولیس تفتیش غلط بھی ہوئی ہو تو معزز جج اس کو درست کرنے کا حکم دے سکتا ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے بتایاکہ ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ ایکٹ کے تحت ایسے شہری جن پر پولیس کی زیر حراست تشدد ہو یا وہ جعلی پولیس مقابلے میں مارے جائیں تو ایسے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور انویسٹی گیشن کرنے کا اختیار ایف آئی اے کے پاس ہے، پولیس اس معاملہ پر مقدمہ درج نہیں کر سکتی۔
عدالتی معاون بیرسٹر حیدر رسول مرزا نے اپنے دلائل عدالت میں جمع کرا دیئے، جس کے بعد جسٹس طارق سلیم شیخ نے قراۃ العین افضل ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کارروائی 16 اپریل تک ملتوی کردی۔
قانون ایک، ججوں کے فیصلے الگ الگ
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ ایکٹ پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ قانون کے مطابق شہریوں پر تشدد کے الزام میں پولیس اہلکاروں اور افسران کے خلاف کارروائی کا اختیار ایف آئی اے کو دیدیا گیا۔
قانون پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے سے مقدمات پولیس خود ہی درج کر رہی ہے جن کو بعد میں ایف آئی اے کو ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔
ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ ایکٹ سے متعلق جسٹس طارق سلیم شیخ نے ایک فیصلہ دیا کہ قانون بننے کے بعد پولیس کے پاس درج مقدمات خارج ہوں گے اور ایف آئی اے خود مقدمہ درج کر کے تفتیش کرے گی، اس حوالے سے ایک ہی ایشو پر لاہور ہائیکورٹ کے دو معزز ججز کے الگ الگ پوائنٹ سامنے آگئے۔
اس دوران جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں پولیس کانسٹیبل کی درخواست ضمانت کا معاملہ آیا جس میں شہری پر تشدد کے الزام میں پولیس کانسٹیبل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا جس پر عدالت نے اب معاونین سے رائے مانگی ہے جس کے بعد عدالت فیصلہ سنائے گی۔