لاہور: (جاوید اقبال) ایک لمحے کو ٹھہرئیے، سانس روک لیجیے اور تصور کیجیے اُس لمحے کا جب نیلی وسعتوں میں پاکستان کے شاہین دشمن کے فولادی قلعوں پر بجلی بن کر گرے، یہ کوئی فلمی منظر نہیں، یہ حقیقت ہے— وہ حقیقت جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
یہ کوئی معمولی فضائی جھڑپ نہیں تھی، یہ ایمان، جرات اور حب الوطنی کے سنگم کی وہ چمکتی ہوئی روشنی تھی جس نے مغرب کے ایوانوں میں اندھیرے بھر دیئے۔
یہ خبر نہیں، تاریخ کا دھماکا ہے
بین الاقوامی خبر رساں ادارہ رائٹرز اس جھڑپ کو صرف ایک واقعہ نہیں، ایک "turning point" کہہ رہا ہے، رپورٹ کے مطابق، پاکستانی پائلٹس نے چین کے بنائے ہوئے J-10 طیاروں کے ذریعے بھارت کے جدید ترین، اربوں ڈالر کے فرانسیسی رافیل طیاروں کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ انہیں فضا میں مار گرایا۔
یہ وہی رافیل ہیں جن کے بارے میں بھارت اور اس کے مغربی سرپرستوں کا دعویٰ تھا کہ یہ ناقابلِ شکست ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ ایمان کی گرمی میں ڈھلا ہوا جذبہ، کسی بھی مشین سے بڑا ہوتا ہے۔
شاہینوں کی پرواز، رافیل کی شکست
ایک امریکی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا: ’’بہت پراعتماد انداز میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی پائلٹس نے J-10 طیارے سے ایئر ٹو ایئر میزائل فائر کیے جو بھارتی جہازوں کے لئے آخری سانس ثابت ہوئے۔‘‘
یہ وہ لمحہ تھا جس میں پوری دنیا نے ایک حقیقت جانی— پاکستانی شاہین صرف تکنیکی مہارت پر نہیں، جذبۂ ایمانی اور شہادت کی آرزو پر یقین رکھتے ہیں۔
بھارتی غرور کا جنازہ
ہندوستان جو رافیل کی خریداری کو اپنی فتح سمجھ بیٹھا تھا، آج خاموش ہے، اسرائیل، جس نے بھارت کو تکنیکی مدد دی، وہ بھی سناٹے میں ہے، جنگی ماہرین اور فائٹر پائلٹس، مغربی دنیا کی بڑی کمپنیاں— یہ سب اب پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ان کے پاس لفظ نہیں، صرف حیرت ہے۔
عرب دنیا کا خراجِ تحسین
عرب اخبارات نے لکھا: ’’یہ صرف ایک فضائی جھڑپ نہیں، ایک اعلان تھا— کہ فضا میں اب بھی شاہین بستے ہیں!‘‘ انہوں نے پاکستانی پائلٹس کو فضائی ٹائیگرز کا خطاب دیا اور یہ خطاب خالی تعریفی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر ایک اقرار ہے کہ پاکستانی شاہینوں نے فضا کا نظام بدل دیا ہے۔
یہ کون لوگ ہیں؟
یہ وہ لوگ ہیں جن کے سینوں میں صرف دل نہیں، ایمان کی آگ جلتی ہے، جو ہر مشن سے پہلے سورۂ فتح پڑھتے ہیں، جو ہر پرواز کو شہادت کی معراج سمجھتے ہیں، ان کے پاس لاکھوں ڈالر کی ٹیکنالوجی نہیں، مگر ان کے بازووں میں وہ طاقت ہے جو بدر میں بدر الدجال کو چیر گئی تھی۔
فرانسیسی آہنی پرندے یا فضائی گدھ؟؟؟
فرانسیسی رافیل، جسے بھارت نے اربوں ڈالر خرچ کر کے خریدا، جدید ترین ٹیکنالوجی، ریڈار جمنگ سسٹمز اور اسٹیلتھ فیچرز کا شور مچایا— وہ سب فضا میں اس وقت خاک میں مل گیا جب اس کا سامنا اُس شاہین سے ہوا جو وضو کی پاکیزگی، اذان کی گونج، اور ’’اللہ اکبر‘‘ کی للکار لے کر اُڑا تھا، رافیل کا بدن اگر سٹیل سے بنا تھا تو پاکستانی پائلٹ کا سینہ ایماں کے فولاد سے ڈھالا ہوا تھا۔ یہی وہ فرق ہے جو جنگوں کی تقدیریں لکھتا ہے۔
بغیر قوتِ ایمانی کے، رافیل کوئی شاہین نہیں، محض ایک فضائی گدھ ہے— بے روح، بزدل، اور بھٹکا ہوا، اور پاکستانی شاہین؟ وہ زمین پر سجدہ گزار اور فضا میں دشمن کا قاصم ہے، یہ جنگ صرف جہازوں کی نہیں، نظریات کی تھی اور جب نظریہ خالص ہو، ارادہ آسمانی ہو، تو جدید ٹیکنالوجی بھی ایندھن بن کر جلتی ہے، رافیل گرا نہیں، بلکہ مغرب کے غرور کا جنازہ لے کر گرا، اور دنیا نے دیکھا کہ ایمان کی پرواز کے سامنے کوئی آہنی پرندہ ٹھہر نہیں سکتا۔
مودی قصاب کو سانپ سونگھ گیا؟
مودی قصاب اور اُس کے دفاعی تجزیہ نگاروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، وہی زبانیں جو کل تک رافیل کے قصیدے پڑھ رہی تھیں، آج شرمندگی کے بوجھ تلے دب چکی ہیں، بھارت کا عسکری تکبر، جو اربوں ڈالر کے سودوں اور جھوٹی برتری کے غرور پر کھڑا تھا، پاکستانی شاہینوں کے ایک ہی وار سے زمین بوس ہوگیا، یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا نے دیکھا کہ جذبۂ ایمان کے سامنے ٹیکنالوجی، سازش اور پروپیگنڈا سب بے بس ہیں۔
ہندوستانی میڈیا اب صحافت نہیں کرتا، بلکہ قوم پرستی کے خمار میں مبتلا ایک تھیٹر کمپنی بن چکا ہے جہاں اینکرز اینکر کم اور جنگی ڈھولچی زیادہ لگتے ہیں، خبر نہیں، جذباتی چیخ و پکار، تجزیہ نہیں، بے سروپا دعوے، اور سچ نہیں، جھوٹ کا فتنہ نشر کیا جاتا ہے۔
جوں ہی پاکستان نے اپنے شاہینوں کے ذریعے فضاؤں میں رافیل کا غرور خاک میں ملا دیا، تو یہی گودی میڈیا جھوٹی فتوحات کے افسانے گھڑنے لگا، گویا شکست کو بھی فتح میں بدلنے کا کوئی ہنر سیکھ چکے ہوں، مگر دنیا اندھی نہیں ہے— بین الاقوامی میڈیا اور ماہرین کی سچائی نے ان کے پروپیگنڈے کو ننگا کر دیا، یہ وہ میڈیا ہے جو نالائق شاگرد کی طرح ہر امتحان میں فیل ہو کر بھی والدین کو A گریڈ کی رپورٹ دکھاتا ہے، صرف اس بار دنیا نے وہ جعلی رپورٹ خود چاک کر دی ہے۔
آذربائیجان میں جشن
یہ منظر واقعی دل کو چھو لینے والا تھا— جب آذربائیجان کی سرزمین پر، برصغیر سے سیکڑوں میل دور، ہمارے بھائی جھنڈا اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے، پاکستانی پرچم لہراتے، خوشی سے سرشار چہرے اور نعرۂ تکبیر کی گونج! یہ صرف فتح کا جشن نہ تھا، یہ دلوں کے رشتے، ایمان کی یکجائی اور امتِ مسلمہ کے ایک جسم ہونے کا ثبوت تھا، آذربائیجان کی گلیوں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجے تو یوں لگا جیسے سرحدیں مٹ گئیں، اور دو قومیں ایک دل کی دھڑکن بن گئیں۔
آخری پیغام
دنیا خبردار ہو جائے، مغرب اپنی گنتی دوبارہ کرے اور بھارت اپنی رافیل ڈیل کی رسیدیں سنبھال لے— کیونکہ اب فضاؤں میں پاکستانی شاہین اڑان بھر چکے ہیں، اور یہ پرواز صرف ایک دشمن کی تباہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے غرور کو روندنے والی ہے۔
یہ صرف ایک لڑائی نہیں تھی، یہ ایک اعلان تھا کہ پاکستان صرف زمین پر نہیں، فضا میں بھی ناقابلِ شکست ہے!
مقبوضہ کشمیر کی پکار اور خالصتان تحریک کا احیاء
آج تاریخ چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ اے پاکستان کے شاہینو! اُٹھو، للکارو، اور وہ کام مکمل کرو جو صدیوں سے ادھورا ہے، وہ خونی لکیر جس نے مقبوضہ کشمیر کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے، اسے اب اپنے لہو سے دھو ڈالنے کا وقت آ چکا ہے، بھارت جس نے نہتے کشمیریوں کی ماؤں کی گودیں اجاڑیں، ان کے بیٹوں کو گولیوں سے چھلنی کیا، بہنوں کی چادریں نوچیں، اور مسجدوں کو راکھ میں بدل دیا— اس کے اس ناپاک وجود کو اب نیست و نابود کر دینا فرض ہے، عبادت ہے، جہاد ہے!
یاد رکھو! 1962 میں جب بھارت چین کے ہاتھوں زمین چاٹ رہا تھا، ہم امریکی لالی پاپ چاٹتے رہ گئے، 1965 میں جب میدان سجا، تو دوست پیچھے ہٹ گئے، 1971 میں جب سازشوں کا ننگا ناچ ہوا، تو اندرا گاندھی نے سینہ تان کر کہا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا! اب وہی وقت دوبارہ آیا ہے، مگر اس بار تمہارے ہاتھ میں گمنام وعدے نہیں، فتح کے پروانے ہیں، تمہارے بازو میں جذبہ ایمان ہے، اور فضا میں تمہاری للکار گونج رہی ہے۔
یہ وقت ہے کہ تم دشمن کے اس زخم کو کریدو، اس کے تکبر کو راکھ میں بدلو، اور مقبوضہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے آزاد کرواؤ، یہ وقت ہے کہ خالصتان کی بجھتی ہوئی چنگاریوں کو شعلہ بناؤ، تاکہ ظالم کے ایوان لرز اٹھیں، اگر آج بھی ہم نے چپ سادھی، تو کل کا مؤرخ کیا لکھے گا، نہیں! اب خاموشی کا وقت گزر چکا، اب وہ لمحہ آن پہنچا ہے جب تمہاری پرواز تاریخ کے ماتھے پر ایسا نقش چھوڑ جائے جو قیامت تک مٹ نہ سکے۔
آخر میں شہبازوں کو شاباش اور قومی سلام
سلام ہو اُن شہبازوں پر، جنہوں نے آسمانوں میں تاریخ رقم کر دی! سلام ہو اُن پاکستانی شاہینوں پر، جنہوں نے دشمن کے غرور، تکبر اور فضائی برتری کے بت کو فضا میں پاش پاش کر دیا! تم نے نہ صرف بھارت کے اربوں کے رافیل کو زمین چاٹنے پر مجبور کیا، بلکہ اُس تکبر کو بھی روند ڈالا جو دہلی سے لے کر اسرائیلی لابیوں تک پھیل چکا تھا، تم نے ساری دنیا کو بتا دیا کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں، جذبوں سے لڑی جاتی ہیں!
اے وطن کے فدائیو! جب تم فضا میں بلند ہوئے تو تمہارے پروں میں صرف ایندھن نہیں، ماں کی دعا، شہیدوں کی روح اور قرآن کی صدائیں تھیں، تمہارے ہاتھ دشمن کے کنٹرول پر نہیں، قوم کی امید پر تھے، تم جب دشمن پر جھپٹے تو ایسا لگا جیسے بدر کے غازیوں کی روحیں پھر سے بیدار ہوگئی ہوں! تم نے صرف طیارے نہیں گرائے، تم نے فرعونوں کے خواب، نمرودوں کے محل اور یزیدوں کے غرور زمین بوس کر دیئے!
آج پاکستان کا بچہ بچہ تمہیں سلام کرتا ہے، تمہاری جرات پر ناز کرتا ہے، تمہاری پرواز پر سجدہ شکر ادا کرتا ہے، تم ہو اصل ہیرو، تم ہو ملت کے سپاہی، تم ہو وقت کے خالد، تم ہو صلاح الدین کے وارث!۔