لاہور: (دنیا نیوز) 2017ء سے 2024ء تک کے بجٹ کے اعداد و شمار کیا تھے؟ تفصیل اس رپورٹ میں دیکھیں۔
2017-18کا بجٹ
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2017 اور 2018 کا 4 ہزار 7 سو 78 ارب (47 کھرب اور 78 ارب ) حجم کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس کے تحت ایڈہاک الاؤنس کو ضم کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ، محنت کش کی کم سے کم اجرت ایک ہزارروپے اضافے کے ساتھ 14ہزار سے بڑھا کر 15ہزار روپے کرنے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کامیابیوں کا اعتراف کرتے ہوئے فوجی افسروں اور جوانوں کے لئے 10فیصد سپیشل الاؤنس اورچھوٹے کسانوں کو کم شرح سو د پر قرضوں کی فراہمی، امونیا کھاد کی قیمت میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔
بجٹ کے تحت لگائے گئے نئے ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافے کے نتیجے میں سیمنٹ، سریا،در آمدی کپڑے، سگریٹ ، پان ، چھالیہ ، چاکلیٹ، کاسٹمیٹکس، الیکٹرانکس ،دوائیں مہنگے ہوگئیں جبکہ چھوٹی گاڑیاں، سمارٹ موبائل فون، فون کال، مرغی، شترمرغ، ٹیکسٹائل، امونیا کھاد، زرعی مشینری ، بے بی ڈائپرز ہائبریڈ کار، لبریکٹینگ آئل اور ٹیوب ویل کے لئے بجلی سستی کی گئی تھی۔
مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5310 ارب روپے لگایا گیا تھا جس میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4013 روپے تھے، نظر ثانی شدہ ہدف 3521 ارب روپے تھا، کل آمدنی میں 12.1 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 14 فیصد اضافہ متوقع تھا۔
کل آمدنی میں سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 2384 ارب روپے بنتا تھا جو کہ گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ ہدف 2121ارب روپے کے مقابلے میں 12.4 فیصد زیادہ تھا، یہ وسائل صوبائی حکومتیں انسانی ترقی اور لوگوں کی سکیورٹی کے لئے خرچ کئے جانے تھے۔
دفاعی بجٹ کی مد میں نظر ثانی شدہ تخمینہ جات کے مطابق پچھلے سال کے 841 ارب روپے کی نسبت 920 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
2018-19 کا بجٹ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 19-2018 کے لئے 5 ہزار 932 ارب 50کروڑ روپے حجم کا بجٹ پیش کیا تھا، سال2017-18 کے 999 ارب روپے کے مقابلے میں دفاعی بجٹ کے لئے 1100 ارب روپے تجویز کئے گئے تھے۔
تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ
یکم جولائی 2018ء سے سول، فوجی ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا گیا، تمام پنشنرز کے لئے بھی 10 فیصداضافہ کیا گیا، ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی 50 فیصد اضافہ کیا گیا، پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر10ہزار روپےکردی گئی تھی، فیملی پنشن کو 4500 روپے سے بڑھا کر 7500 کردیا گیا، 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کے کے لیے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے مقرر کی گئی جبکہ سٹاف، کار ڈرائیور، ڈسپیچ رائیڈرز کے لئے اوور ٹائم الاؤنس 40 روپے فی گھنٹہ سے بڑھ کر 80 روپے فی گھنٹہ ہوگا۔
ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب
بجٹ دستاویز کے مطابق جاری اخراجات کے لئے 478 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، وفاقی حکومت کا ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب اورایک کروڑ روپے رکھا، جنرل پبلک سروسز پر اخراجات 3 ہزار340 ارب روپے تھے، دستیاب وسائل میں محصولات کا حصہ 2 ہزار 590 ارب روپے رکھا گیا تھا، دستیاب وسائل کا تخمینہ 4 ہزار713 ارب 70کروڑروپے رکھا گیا تھا جبکہ بیرونی دستیاب وسائل ایک ہزار118 ارب روپے رکھا گیا تھا۔
2019-20 کا بجٹ
وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے مالی سال 20-2019 کے لئے 70 کھرب 36 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا، جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3151.2 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا۔
بجٹ 20-2019 کے نمایاں خدوخال
بجٹ تخمینہ 7000 ارب روپے سے زائد
ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 5550 ارب روپے
دفاعی بجٹ 1152 ارب روپے پر برقرار
محصولات کے لیے جی ڈی پی کا تناسب 12.6 فیصد تک بڑھانے کی تجویز
ترقیاتی منصوبوں کے لیے تخمینہ 925 ارب روپے
خسارے کا تخمینہ 3151.2 ارب روپے
صوبائی سرپلس کے لیے 423 ارب روپے
3 ہزار 255 ارب روپے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے تجویز
قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 2891.4 ارب روپے
قومی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1800 ارب روپے — جس میں سے 950 ارب روپے وفاقی خرچ شامل
ڈیم کے منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے — جس میں 15 ارب روپے بھاشا ڈیم اور 20 ارب روپے مہمند ڈیم کی اراضی کے لیے مختص
داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے 55 ارب روپے
اشیاء کے لیے جنرل سیل ٹیکس کی شرح 17 فیصد پر برقرار
ہیولین تھاکوٹ موٹر وے کے لیے 24 ارب روپے مختص
ریسٹورانٹس اور بیکریز کے لیے اشیاء پر ٹیکس کی شرح 4.5 فیصد
انسانی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 60 ارب روپے
اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے
وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے
کراچی میں 9 منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے
بلوچستان میں ترقیاتی پیکج کے لیے 10.4 ارب روپے اور پانی کے منصوبوں کے لیے 30 ارب روپے
کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی
کم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر
خشک دودھ، پنیر، کریم پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی
وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے
زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے
پینشن میں 10 فیصد اضافہ
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ بڑھا کر 5500 روپے کرنے کی تجویز
چینی، کوکنگ آئل، گھی، مشروبات، سگریٹ اور سی این جی مہنگی
گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافے کی تجویز تھی۔
ماہانہ 50 ہزار روپے سے زائد تنخواہ پر ٹیکس کی تجویز دی گئی تھی۔
دفاع کیلئے مختص بجٹ
وفاقی حکومت نے دفاعی بجٹ کو گزشتہ مالی سال کے بجٹ کے مطابق برقرار رکھتے ہوئے 1152 ارب روپے مختص کیا تھا۔
مالی سال 19-2018 کے بجٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دفاع کے لئے گذشتہ برس 18-2017 کے مقابلے میں 19.4 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 11 کھرب (1100 ارب) روپے تجویز کئے تھے، سال 18-2017 کے بجٹ میں 9 کھرب 20 ارب (920 ارب) روپے دفاع کے لیے رکھے گئے تھے، 19-2018 میں اس میں ایک کھرب 80 ارب (180ارب) روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ برس مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں دفاع کے لئے مختص رقم میں 7 فیصد اضافہ کیا تھا، 17-2016 میں دفاع کے لئے 860 ارب مختص کئے تھے جبکہ 18-2017 کے بجٹ میں دفاع کے لئے 920 ارب روپے تجویز کیے تھے۔
21-2022 کا وفاقی بجٹ
وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے 2020 اور 2021 کیلئے 7136 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا، جس میں وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے رہا اور اخراجات 7137 ارب روپے تھے، اس طرح بجٹ خسارہ 3437 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 7 فی صد تھا۔
بجٹ میں آمدن کا مجموعی تخمینہ 63 کھرب 14 ارب روپے رکھا گیا، محاصل سے آمدن کا تخمینہ 36 کھرب 99 ارب 50 کروڑ روپے تھا، بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 70 ارب روپے لگایا گیا تھا۔
دفاع کے لئے 1290 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ میں دفاعی اخراجات کی مد میں 1290 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جس کا حجم گزشتہ سال کی نسب 11 فی صد زیادہ بتایا گیا تھا۔
صحت کے لیے 25 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ میں کرونا وبا کے پیشِ نظر صحت کے بجٹ میں 130 فی صد اضافہ کیا گیا تھا، صحت کے شعبے میں 25 ارب روپے رکھے گئے، وفاق کے زیرِ انتظام لاہور اور کراچی کے ہسپتالوں کے لیے 13 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
تعلیم کے لئے 83 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لئے 83 ارب روپے مختص کئے گئے تھے، گزشتہ سال اسی مد میں 77 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
بجٹ میں توانائی اور بجلی کے شعبے کے لیے 80 ارب روپے مختص کئے گئے سماجی شعبے کے لیے 250 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
مواصلات کے منصوبوں کے لیے 37 ارب روپے رکھے گئے، آبی وسائل کے لئے 69 ارب روپے رکھے گئے، بجلی کا ترسیلی نظام بہتر بنانے کے لیے 80 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔
2021-22 کا بجٹ
وزیرخزانہ شوکت ترین نے 8 ہزار 487 ارب روپے کا 2021 اور 2022 کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں اگلے مالی سال کیلئے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد رکھا گیا، وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافہ کیا تھا، پنشن میں 10 فیصد اضافہ اور کم سے کم تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی تھی۔
وفاقی بجٹ میں کووڈ ایمرجنسی ریلیف فنڈ کیلئے 100ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات اور نئی مردم شماری کیلئے پانچ پانچ ارب روپے مختص کئے گئے۔
دفاعی بجٹ میں 74 ارب سے زائد اضافہ
مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں دفاعی امور اور خدمات کے بجٹ میں بھی اضافہ کیاگیا، بجٹ کی دستاویز کے مطابق دفاعی امور اور خدمات کیلئے 1373.275 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
گزشتہ مالی سال 21-2020 کے بجٹ میں دفاع کا نظرثانی شدہ میزانیہ 1299.188 ارب روپے رکھا گیا تھا اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کیلئے 74.087 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔
بجٹ دستاویز کے مطابق دفاعی انتظامیہ کیلئے 3.275 ارب روپے مختص کئے گئے جبکہ دفاعی خدمات کیلئے 1370 ارب روپے رکھے گئے جس میں سے ملازمین کے اخراجات کیلئے 481.592 ارب روپے، عملی اخراجات کیلئے 327.136 ارب روپے، مادی اثاثہ جات کیلئے 391.499 ارب روپے اور تعمیرات عامہ کیلئے 169.773 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
2022-23 کا بجٹ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022 کے لئے 95 کھرب حجم کا بجٹ پیش کیا تھا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ، انکم ٹیکس کی کم سے کم شرح 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کر دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کے لئے پٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا تھا، دیگر ممالک کی طرح پنشن فنڈ قائم کیا گیا۔
اس کے علاوہ شرح نمو 5 فیصد رکھی گئی اور جی ڈی پی کو 67 کھرب سے بڑھا کر 78 کھرب روپے کیا گیا، افراط زر کی شرح کاہدف 11.7 فیصد سے کم کرکے 11.5 رکھا گیا۔
دفاعی بجٹ
بجٹ میں ملکی دفاع کے لیے ایک ہزار 523 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، دیگر اخراجات کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا گیاتھا کہ مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502 ارب روپے ہے جس میں قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3ہزار 144ارب روپے رکھے گئے جبکہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 800ارب روپے رکھے گئے تھے۔
بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 364 ارب روپے رکھے گئے جبکہ ایک کروڑ طلبہ کو بے نظیر سکالرشپ دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا، تعلیم کے لئے 109ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ 40ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدن والوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے دیئے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔
2023-24 کا بجٹ
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لئے 14 ہزار 460 ارب کا بجٹ پیش کیا تھا، بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ، گریڈ 17 اور اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافہ کیا گیا، پنشنرز کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ، مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کردی گئی تھی۔
مالی سال 24-2023 کے اعداد و شمار
مالی سال کے لئے معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ تھا جبکہ افراط زر کی شرح 21 فیصد تک تھی، بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد تھا، برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر تھا۔
ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 9،200 ارب روپے جس میں صوبوں کا حصہ 5،276 ارب روپے تھا، وفاقی نان ٹیکس محصولات 2،963 ارب روپے تھے، وفاقی حکومت کی کل آمدن 6،887 ارب روپے تھی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14،460 ارب روپے تھا جس میں سے انٹرسٹ پیمنٹ کیلئے 7،303 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
PSDP کے لیے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے 200 ارب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 1،150 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے امکانات تھے۔
دفاعی بجٹ
ملکی دفاع کے لئے 1،804 ارب روپے سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 714 ارب روپے مہیا کئے گئے تھے، پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کیے گئے، بجلی گیس اور دیگر شعبہ جات کے لئے 1،074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی تھی۔
2024-25 کا بجٹ
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب 25-2024 کا 18ہزار ارب سے زائد حجم کا بجٹ پیش کیا تھا جس میں وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافے کے ساتھ ساتھ ملک میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ 36ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی اور ملک کے دفاعی اخراجات کے لیے 21 سو 22 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
آئندہ بجٹ کے اہم نکات
گریڈ 1 سے16 کے سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہ میں 25 فیصد اضافہ
گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 22 فیصد اضافہ
سرکاری ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافہ
کم سے کم ماہانہ تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار روپے مقرر
ہائبرڈ اور لگژری الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت ختم
انجن کی استعداد کے بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر ٹیکس لینے کا فیصلہ
سولر پینل کیلئے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایت کا اعلان
پنشن کے نظام میں اصلاحات لانے کی تجویز
دفاع کیلئے 2ہزار 122 ارب روپے مختص
موبائل فونز پر یکساں ٹیکس عائد کرنے کی تجویز
آئی ٹی سیکٹر کے لیے 89 ارب روپے مختص
حکومت نے 25-2024 کے لئے تاریخ میں سب سے بڑا فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام وضع کیا جس کا حجم ایک ہزار 500 ارب روپے رکھاگیاتھا جو پچھلے سال کے نظر ثانی شدہ حجم سے 101 فیصد زیادہ تھا، 1500 ارب میں پی پی پی منصوبوں کے لئے 100 ارب روپے شامل تھے۔