وفاقی بجٹ ۔۔۔۔ معاشی ٹیم بیک فٹ پر کیوں؟

Published On 12 June,2025 10:39 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) نئے مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے مگر حکومت اور حکومتی شخصیات اس بجٹ پر بیک فٹ پر نظر آرہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پہلی مرتبہ وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد ایف بی آر میں ہونے والی ٹیکنیکل بریفنگ منسوخ کر دی، یہ ٹیکنیکل بریفنگ بجٹ میں اٹھائے گئے ریونیو اقدامات کی تفصیلات بتانے کیلئے ہوتی ہے۔

بجٹ کے اگلے روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں فنانس بیٹ کے صحافیوں نے اس اہم پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ بھی اسی لئے کیا کہ وزارت خزانہ اور ایف بی آر حکام نے وجہ بتائے بغیر ٹیکنیکل بریفنگ کو منسوخ کیوں کیا۔

اس کے بعد جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ صحافیوں کو منا کر واپس لانے میں کامیاب ہوئے تو حکومت اس بریفنگ کے منسوخ ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ نہ بتا سکی، بریفنگ منسوخ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ٹیکسیشن کے عام آدمی پر اثرات کے حوالے سے حقائق سامنے لانے میں رکاوٹ آئی۔

برسوں سے بجٹ کو کوَر کرنے والے صحافیوں نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کہا کہ اس مرتبہ انہیں بجٹ کی سمجھ ہی نہیں آئی، اس بجٹ میں پہلی مرتبہ ای کامرس اور آن لائن خریداری کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے، آج کے دور میں خاص طور پر نوجوان نسل کسی نہ کسی طرح ای کامرس یا آن لائن منصوعات یا خدمات سے جڑی ہوئی ہے مگر پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بتائی گئی معلومات کے باوجود ابھی تک یہ کلیئر نہیں ہو سکا کہ ڈیجیٹل اکانومی کی ٹیکسیشن کام کیسے کرے گی۔

اس بجٹ میں کم از کم اُجرت کے حوالے سے بھی خاموشی اختیار کی گئی ہے، ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے جو بجٹ تقریر قومی اسمبلی میں کی اور جو لکھی ہوئی تقریر اراکین کو تقسیم کی گئی اس میں بھی کچھ تبدیلیاں تھیں، مزدور کی کم از کم اُجرت جو کہ گزشتہ سال 37 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی اس بجٹ میں اس پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

مہنگائی کی سب سے بڑی وجوہات جن میں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں ان میں اضافہ ہونے جا رہا ہے، پہلے سے مہنگی ترین بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ اس لئے ہونے جا رہا ہے کہ حکومت توانائی سیکٹر کے شعبے میں گردشی قرضوں پر سرچارج بڑھانے کا فیصلہ کر چکی ہے، پاکستان کا گردشی قرضہ2393 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جسے اتارنے کیلئے حکومت بینکوں سے 1275 ارب روپے کا قرض لینے جا رہی ہے اور یہ قرض ڈیٹ سروسنگ سرچارج لگا کر پورا کیا جائے گا۔

حکومت پہلے ہی فنانشل سرچارج کے نام پر صارفین سے 10 فیصد تک سرچارج وصول کر رہی ہے مگر قانون میں ترمیم کر کے 10 فیصد کی حد کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وفاقی حکومت سرکلر ڈیٹ کو ختم کرنے کیلئے اضافی سرچارج لگا کر رقم اکٹھی کر سکے، اس سرچارج کے بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، حکومت نے یہ سرچارج لگا کر گردشی قرضہ ختم کرنے کا عارضی منصوبہ بنا لیا مگر بجلی چوری اور ریکوریوں جیسے مسائل کا حل تلاش نہ کر سکی، یہی وجہ ہے کہ وقتی طور پر تو عوام کی جیب سے رقم نکال کر یہ قرضہ ختم کیا جا سکتا ہے مگر اس سے مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔

مالی سال 26-2025ء کیلئے پٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر ڈھائی روپے فی لٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جا رہی ہے، یوں فی یونٹ بجلی اور فی لٹر پٹرول کی قیمت میں اضافے سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

پاکستانیوں کی بڑی تعداد مہنگی بجلی سے تنگ آ کر سولر پینلز کی جانب رخ کر چکی تھی، سولر پر بھی 18 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، چھوٹی گاڑیاں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی پہنچ میں مشکل سے ہوتی ہیں ان پر بھی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے، رواں مالی سال کی نسبت آئندہ مالی سال میں 2330 ارب روپے کا اضافی ٹیکس اکٹھا کیا جانا ہے، ایسے میں 300 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں اور390 ارب روپے ان ریونیو اقدامات سے پورے کئے جائیں گے جہاں پر ٹیکس چوری ہو رہی تھی۔

بجٹ میں اگر ریلیف کی بات کی جائے تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں سات فیصد اضافہ کیا گیا ہے، تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں آٹے میں نمک کے برابر کمی کی گئی ہے، 50 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک ماہانہ تنخواہ لینے والے کو دو ہزار روپے تک ریلیف ملے گا جبکہ زیادہ تنخواہ لینے والے پروفیشنلز سے متعلق بجٹ تقریر میں بڑی دلچسپ توجیہ یہ پیش کی گئی ہے کہ ملک کی بہترین پیشہ ور افرادی قوت کو اس خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسز کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ انتہائی با صلاحیت افراد ملک سے باہر جا سکتے ہیں۔

اس برین ڈرین کو روکنے کیلئے ان پر عائد سرچارج میں ایک فیصد کمی تجویز کی گئی ہے، یوں ماہانہ لاکھوں روپے کا ٹیکس ادا کرنے والے ان پروفیشنلز کو دیا گیا ریلیف 10 سے 17 ہزار روپے تک بنتا ہے، وزیر خزانہ سے سوال بھی کیا گیا کہ سرچارج میں ایک فیصد کا ریلیف دے کر برین ڈرین کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وفاقی بجٹ میں عوام کیلئے ریلیف نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ ان کیلئے یوٹیلٹی بلز اور اخراجات بڑھنے جا رہے ہیں۔

پراپرٹی سیکٹر کیلئے البتہ ٹیکسز میں کمی کی گئی ہے، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ڈیوٹی ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے، جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس چار فیصد سے کم کر کے دو اعشاریہ پانچ ، دوسرے سلیب میں دو فیصد جبکہ تیسرے سلیب میں ڈیڑھ فیصد رکھا گیا ہے۔

دفاعی بجٹ میں 20 فیصد تک اضافہ ناگزیر ہو چکا تھا، پاک بھارت جنگ کے بعد خطے میں کشیدہ صورتحال کا خطرہ منڈلا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو دفاعی بجٹ میں اب مناسب اضافہ کرنا تھا، آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافے پر اعتراض نہیں کیا، دفاع کیلئے 2550 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور مسلح افواج کیلئے سپیشل ریلیف الاؤنس بھی رکھا گیا ہے۔

پاکستان مشکل معاشی اور بحرانی صورتحال سے تو نکل آیا ہے مگر اداروں کی ری سٹرکچرنگ، پرائیوٹائزیشن اور اصلاحات جیسے دیرپا حل کے بجائے انہی لوگوں کی جیب سے رقم نکلوائی جا رہی ہے جو پہلے ٹیکسز ادا کر رہے ہیں، درحقیقت بجلی اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے جرم کی سزا پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے ہی بھگتتے دکھائی دے رہے ہیں۔