فیصل آباد: (دنیا نیوز) چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ہم آئین میں نئے صوبوں سے متعلق ایک اور ترمیم چاہتے ہیں، صوبے زیادہ ہوں گے تو لیڈر شپ بھی زیادہ ہوگی، نئے لوگوں کے آنے سے بہتری آئے گی، اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہ کیا گیا تو ہم ترقی نہیں کر سکتے، ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے حالات تبدیل ہوں۔
یونیورسٹی آف فیصل آباد میں ملکی نجی یونیورسٹیز "سپ ایپ" کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان "2030 کا پاکستان، چیلنج، امکانات اور نئی راہیں" سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ڈھائی سو سال پہلے بادشاہتیں قائم تھیں، بادشاہ اپنی مملکت کو بڑھانے کیلئے عوام سے پیسہ اکٹھا کرتے تھے، انسانیت نے کروٹ لی تو عوام میں شعور پیدا ہوا کہ سلطنت ہماری طاقت سے بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس دن عوام کو احساس ہوا اس دن جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی، جمہوری معاشرے اور ملک وجود میں آئے، جمہوری ممالک نے وسائل کو عوام تک پہنچانا چاہا تو انہوں نے سوچا ہمیں ایک نیشنل گورنمنٹ چاہیے، پھر سوچا گیا عوام تک وسائل پہنچانے کیلئے چھوٹے انتظامی یونٹس ہونے چاہئیں۔
’کوئی صوبائی حکومت اپنے اختیارات نیچے منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے تمام انتظامی مسائل لوکل گورنمنٹ حل کرتی ہے، ہم 78 سال سے لوکل گورنمنٹ بنانے کی باتیں کر رہے ہیں، آئین میں بھی لوکل گورنمنٹ کا لکھا ہوا ہے، کوئی صوبائی حکومت اپنے اختیارات نیچے منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں، صوبائی حکومت نہیں چاہتی کہ وسائل منتقل ہوں جس کا نشانہ عوام بنتے ہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ 7 ایسے اجزا ہیں جس پر کسی مملکت کی بنیاد رکھی جاتی ہے، پبلک ویلفیئر، سوشل ویلفیئر، اسٹیبلشمنٹ آف جسٹس، اکنامک اور پولیٹیکل ویلفیئر ماڈرن اسٹیٹ میں شامل ہوتے ہیں، پبلک ویلفیئر ہر حکومت کا سب سے بڑا فرض ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہے ہمارے سکول، ہسپتال، لاء اینڈ آرڈر اور انصاف کی کیا صورتحال ہے۔
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ شائع کی کہ جب پاکستان کو 100 سال ہوجائیں گے تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے، غلطیوں کو دور نہیں کریں گے تو کبھی منزل تک نہیں پہنچیں گے، پاکستان کے تمام ریجنز میں لوگوں کو ایک جیسے حقوق نہیں مل رہے، ہمیں ہر جگہ انصاف ایک جیسا نہیں مل رہا۔
’اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کئے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے‘
انہوں نے کہا کہ پنجاب پاکستان کا 53 فیصد اور باقی تین مل کر 43 فیصد ہیں، ہم ایک فیڈریشن ہیں جن کا ایک یونٹ باقی تین سے بڑا ہے، پنجاب آبادی کا 53 فیصد ہے اس لئے اس کو وسائل بھی اتنے چاہئیں، باقی تینوں صوبے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے روادار نہیں، اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہ کیا گیا تو ہم ترقی نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی پاکستان بنا تو اس کی آبادی 3 کروڑ کے قریب تھی، اب پاکستان کی آبادی 25 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، مغربی پاکستان بنا تو اس کے پاس 4 صوبے تھے، بلوچستان صرف 11 لاکھ آبادی کا صوبہ تھا، اگر ہم اس کو وقت پر سنبھال لیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔
’فیصل آباد کو الگ صوبہ بنانے کی تجویز‘
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ پاکستان کے آج 33 ڈویژنز ہیں، ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ فیصل آباد کو الگ صوبہ بنائیں، دنیا میں سیاسی لیڈر شپ مڈل کلاس سے بنتی ہے، بدقسمتی سے ہمارا سسٹم مڈل کلاس کو آگے آنے کا موقع فراہم نہیں کرتا، ہم اگر 33 نئی صوبے بنائیں تو لیڈرشپ کی ورائٹی ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایک چائے بیچنے والا وزیراعظم بن گیا، 2014 کے الیکشن میں نریندر مودی وہاں کے وزیراعظم بنے، مودی نے اپنے صوبے گجرات میں کام کیا، اس لیے اس کی گروتھ ہوئی، بھارت میں نریندر مودی نے جب مہم شروع کی تو پورا کارپوریٹ انڈیا اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا، نریندر مودی نے گجرات میں لوگوں کیلئے کام کیا تھا، بی جے پی اکثریت پارٹی بن گئی اس کو اتحادیوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی، ایل کے اڈوانی کہیں نظر ہی نہیں آئے۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ ارشد ندیم جب گولڈ میڈل لایا تو سب ساتھ کھڑے ہوگئے، ارشد ندیم نے پہلے اپنے سسٹم کو شکست دی پھر میدان میں مخالف کو شکست دی۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ اپنے ملک میں عدالتوں کا حال دیکھ لیں، پاکستان میں دیوانی اور سول لیٹی گیشن کیس ختم ہی نہیں ہوتے، جو عدالت میں چلا جائے اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے، قتل کے کیس میں 16 سے 18 سال لگتے ہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ قصور وار جج نہیں ہمارا سسٹم ہے، سپریم کورٹ کے ایک جج کے پاس 4 ہزار کیسز ہوتے ہیں، جج کے پاس صرف 4 گھنٹے کا وقت ہوتا ہے اور 20 سے 25 کیسز روزانہ ہوتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ میں ایک جج کے پاس 3 ہزار کیسز ہوتے ہیں، جن کو سننا اور فیصلہ کرنا ہے، سسٹم اس قسم کا ہے جو کام صحیح طریقے سے کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں پبلک ویلفیئر کے حوالے سے 7 مختلف سروے ہوئے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ سروے کیا گیا تو ہمارا نمبر 140 واں ہے، ہم بالکل آخری نمبروں پر پہنچ چکے ہیں، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں ہم 168 نمبر پر ہیں، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 129 ممالک میں ہمارا 109 واں نمبر ہے۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ ہمارا دین کہتا ہے اگر 40 گھروں تک کوئی بھوکا سوئے تو آپ ذمہ دار ہیں، ہمارے لوگ بھوکے سو رہے ہیں، 44 فیصد بچوں کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے، پاکستان میں تقریباً آدھے بچوں کو کھانا ہی نہیں مل رہا، ہمارے ملک کا ڈھائی کروڑ بچہ سکول نہیں جا رہا، ہم اپنا 20 سال بعد کا مستقبل بھی برباد کر چکے ہیں۔
’ہمیں قابل اور عوام کا درد رکھنے والی لیڈر شپ نہیں ملی‘
انہوں نے کہا کہ یہ بچے جب بڑے ہوں گے تو یہ کام کر ہی نہیں سکیں گے اور کام کرنے والوں کو بھی کام نہیں کرنے دیں گے، یہ حالت اس لئے ہے کہ حکومت عوام تک پہنچ ہی نہیں سکی، ہمیں ایسی لیڈر شپ مل ہی نہیں سکی جس میں قابلیت اور عوام کا درد ہو، ایسی لیڈر شپ لانا ہوگی جو کسی سفارش، اسٹیبلشمنٹ یا خاندان کی وجہ سے سامنے نہ آئے۔
چیئرمین پنجاب گروپ کا کہنا تھا کہ اگر ہم بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان میں چھوٹے انتظامی یونٹس چاہئیں، رول آف لاء کا مطلب ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو، قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ایک طاقتور آدمی آپ کے حق کو چھین نہ سکے، طاقتور کو یہ احساس ہو کہ کسی کے حق پر ڈاکا ڈالنے سے سزا ملے گی تو وہ کبھی حق نہیں چھینے گا، ہم اس لئے کسی کو حکمران بناتے ہیں تاکہ وہ ہمارے حقوق کی حفاظت کرے، قانون اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ آپ کو آگے بڑھنے کیلئے یکساں مواقع ملیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ادارے کمزور ہوں تو کرپشن جنم لیتی ہے، ہمارے ادارے کمزور ہوگئے ہیں، ادارے اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ ان کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، انتظامی یونٹس اور ادارے اتنے بڑے ہوگئے لیکن نیچے سسٹم وہی ہے، قانون بہت سی چیزوں میں یہ حکم دیتا ہے کہ آپ بہتر چیزوں کو عوام کے سامنے لائیں۔
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ گورننس اچھی ہو تو وہاں شفافیت بھی ہوگی، آپ کے چھوٹے انتظامی یونٹس ہوں گے تو بہتر انداز میں آواز اٹھا سکیں گے، فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، سب سے زیادہ زیادتی فیصل آباد کے ساتھ ہوئی ہے۔
’سیاستدان کو سب سے بڑی سزا اس کا ووٹر دے سکتا ہے‘
انہوں نے کہا کہ سیاستدان کیلئے نیب، عدالتیں اور جیلیں کوئی سزا نہیں، 3 سے 4 سال گزرتے ہیں تو پچھلی کسر بھی پوری کر لیتے ہیں، سیاستدان کو سب سے بڑی سزا اس کا ووٹر دے سکتا ہے، آپ ووٹ دینا بند کر دیں اس سے بڑی سزا کوئی نہیں ہوگی، ہمارے پاس کل 2 سے 4 لیڈرز ہیں، ان کے ووٹ بینک کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
چیئرمین پنجاب گروپ کا کہنا تھا کہ صوبے زیادہ ہوں گے تو آپ کے پاس لیڈرشپ بھی زیادہ ہوگی، نئے لوگ آگے آئیں گے تو بہتری ہوگی، ہمارا سلوک کیمرے کے سامنے جا کر بدل جاتا ہے، سیاستدان کی ساری زندگی عوام کے سامنے ہونی چاہیے، یہی شفافیت ہے، شفافیت آجائے تو سیاستدان خود بہتر لیڈر بن جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سب سے زیادہ کرپشن متاثر کرتی ہے، اختیار کا اپنی ذات کیلئے استعمال سب سے بڑی کرپشن ہے، کرپشن دیمک کی طرح معاشرے کو کھا جاتی ہے، سیاستدان کا سب سے زیادہ احتساب اس کا ووٹر کر سکتا ہے، ووٹر کو چاہیے کہ اپنے لیڈر کا احتساب کرے۔
’ہمارے ملک میں اچھا لیڈر بنانے کا کوئی سسٹم موجود نہیں‘
میاں عامر محمود نے کہا کہ سیاستدانوں میں بھی اچھے لیڈر نہیں مل رہے، ہمارے ملک میں اچھا لیڈر بنانے کا کوئی سسٹم موجود نہیں، ہمارے ملک میں لیڈر شاٹ کٹ سے آتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے پش کر دیا تو اس نے لیڈر بننا ہی بننا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی کو 2018 میں اسیٹبلشمنٹ نے سپورٹ کیا تو وہ لیڈر بن گئے، بانی کہا کرتے تھے میری 22 سالہ جدوجہد ہے، میں نے کہا یہ جدوجہد 44 سال کی بھی ہوسکتی تھی اگر اسٹیبلشمنٹ پیچھے نہ ہوتی، پہلے آپ ایک صوبے کو چلا کر آگے آئیں پھر نیشنل لیول کے لیڈر بنیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ آزمائے ہوئے لوگوں کو آگے لائیں، ہمارے 33 صوبوں ہوں اور وہاں ان کو ٹیسٹ کیا جائے، ہم لوگوں کو ٹیسٹ نہیں کرتے اس لئے ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی، کہا جاتا ہے ہم جذباتی ہیں، ہمیں جذباتی بنا دیا گیا ہے،جو ہمارے لئے اپنے گھر کا دروازہ نہ کھولتا ہو اس کیلئے لڑنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب اکٹھے ہو کر خود کو بدلنا نہیں چاہ رہے،ہم مختلف پارٹیوں کی انتخابی مہم کیلئے اکٹھے ہوجاتے ہیں، 20 سال بعد آپ کے پاؤں کی بیڑیاں آگے نہیں بڑھنے دیں گی، آدھی آبادی ایسی ہوگی جو نوکری کے قابل ہی نہیں ہوگی، کسی کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہوتی، قوموں کی زندگی میں شاٹ کٹ نہیں ہوتے۔
’خود کو بدلیں گے تو 30 سال میں کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی‘
انہوں نے کہا کہ آپ خود کو تبدیل کریں گے 30 سال میں کوئی بڑی تبدیلی آجائے گی، صوبے چھوٹے کرنے سے شہد کی نہریں نہیں بہہ سکتیں، ہمیں تمام بچوں کو سکول بھیجنا پڑے گا، ہمارا ایک بھی بچہ بھوکا نہیں سونا چاہیے، ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ برا اور بھلا کس چیز میں ہے۔
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ 33 صوبے بننے سے انتظامی اخراجات کم ہوجائیں گے، پنجاب حکومت کا بجٹ پنجاب کے حساب سے ہے، بلوچستان کے پاس پنجاب جتنا بجٹ نہیں، صوبہ جتنا چھوٹا ہوگا اس کا خرچ اتنا کم ہوگا، آپ کو چھوٹے صوبے میں 16 سے زیادہ وزراء کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں کمشنر کو چیف سیکرٹری اور آر پی او کو آئی جی بنا دیں گے، چھوٹے صوبے بنانے سے ان کا خرچ کم ہوجائے گا، چھوٹے صوبے بنانے سے وسائل بچیں گے، اگر ہم یہ سوچ لیں گے یہ ہونا ہے اور ہم نے کرنا ہے تو پھر وہ ہو بھی جائے گا۔
چیئرمین پنجاب گروپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، ایک فیصد نوجوان یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں، یونیورسٹی تک ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔
’ووٹ ہماری زندگی بدلتا ہے، ہمارے پاس آپشن ہونا چاہیے‘
انہوں نے کہا کہ عوام یک زبان ہو کر ایک بات کرے تو کوئی سیاستدان رد نہیں کر سکتا، سیاستدان کی سیاست آپ کے ووٹ سے چلتی ہے، سیاستدان کا احتساب اس لیے نہیں ہو سکتا کہ آپ کے پاس چوائس ہی نہیں، آپ کو آج پتہ ہے ان چند لوگوں کے علاوہ کوئی آگے نہیں آسکتا اس لئے ووٹ ڈال دیتے ہیں، ہم چوائسز کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ ووٹ ہماری زندگی بدلتا ہے، ہم اپنے بچوں کا مستقبل ایک شخص کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں، اگر ہمارے اے، بی، سی مجبوری ہے تو ہم اس کو ووٹ ڈال دیتے ہیں، ہمارے پاس ووٹ ڈالتے وقت چوائس ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے شہر کے اندر ہی تمام سہولیات ملنی چاہئیں، ہم نے اب تک بدقسمتی سے صرف 5 شہر ڈویلپ کئے ہیں، فیصل آباد اور سرگودھا کو کہنا چاہیے کہ ہمیں صوبہ بناؤ، فیصل آباد اور سرگودھا کے پاس لاہور جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے 9 صوبے تھے آج 37 انتظامی یونٹس ہیں، بھارت ہر 5 سال بعد نیا صوبہ بنا دیتا ہے، جب آندھرا پردیش اورتلنگانہ الگ الگ ہوئے، آندھرا پردیش کی فی کس آمدن 93 ہزار بھارتی روپے تھی، تلنگانہ کی فی کس آمدن 124 ہزار بھارتی روپے تھی،10 سال بعد آندھرا پردیش کی فی کس آمدن بڑھ کر 268 ہزار بھارتی روپے ہوگئی، آندھرا پردیش کی 3 گنا فی کس آمدن بڑھ گئی، تلنگانہ کی 10سال بعد فی کس آمدن بڑھ کر 356 ہزار بھارتی روپے ہوگئی، تلنگانہ کی 4 گنا فی کس آمدن بڑھ چکی ہے۔
چیئرمین پنجاب گروپ کا کہنا تھا کہ جب صوبے کام کر رہے ہوں تو یہ اثرات ہوتے ہیں، پاکستان میں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارے صوبے کیا کام کر رہے ہیں، ہم تو صوبوں کا آپس میں مقابلہ کرتے ہی نہیں اور نہ حساب رکھتے ہیں۔
’جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بننا چاہتا‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم جنوبی پنجاب کا کہہ دیتے ہیں، جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بننا چاہتا، بہاولپور، ملتان اور ڈی جی خان الگ صوبہ بننا چاہتا ہے، پیپلزپارٹی ہر بار یہاں کے عوام سے صوبوں کے نام پر ووٹ لے لیتی ہے، ہم نے ریسرچ کی تو ہمارے پاس اپنے صوبوں کی پراگریس کا ڈیٹا ہی موجود نہیں، ہم آئین میں نئے صوبوں سے متعلق ایک اور ترمیم چاہتے ہیں۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں تو وہ ورکرز کو ٹکٹ دیتی ہیں اور وہی پارٹیاں جیتتی ہیں جن کا کوئی ٹریک ریکارڈ ہوتا ہے، ہم نے دیکھا مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی نے جس کو ٹکٹ دیا وہ الیکشن میں جیتا، جب پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں تو لوگ سامنے آتے ہیں۔
’اپنے حقوق کیلئے باہر نکلنے سے ہی جمہوریت آتی ہے‘
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ایلیٹ ہر چیز پر قبضہ کرتی گئی، اس وقت 800 سے ایک ہزار لوگوں پر مشتمل ایلیٹ طبقہ 25 کروڑ عوام کو کنٹرول کر رہا ہے، ہمیں چاہیے کہ اپنے حقوق کیلئے نکلیں کیونکہ متاثرہ تو ہم ہیں، باہر نکلنے سے ہی جمہوریت آتی ہے،نوجوان فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے اپنے لئے سسٹم ٹھیک کرنا ہے، نوجوان کے پیروں میں بیڑیاں ہوں گی تو 20 سال بعد بھی اس نظام سے نہیں نکل سکے گا، نوجوانوں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کیلئے بھی کوشش کرنی ہے۔
چیئرمین پنجاب گروپ کا کہنا تھا کہ ہمیں 78 سال ہوگئے ہیں لوکل باڈیز کو تلاش کرتے ہوئے، لوکل باڈیز صرف مارشل لاء میں بنتی ہیں، منتخب حکومتوں میں نہیں، اچھی گورننس کیلئے لوکل باڈیز چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ 33 صوبوں میں سے کچھ تو وزراء اعلیٰ نکلیں گے جو اچھی لوکل گورنمنٹ بنائیں گے، جمہوریت کے سب سے بڑے پہرے دار عوام ہوتے ہیں، شہید ذوالفقار علی بھٹو صاحب بہت پاپولر لیڈر تھا جس کو پھانسی ہوگئی، نوازشریف 2 تہائی اکثریت کے ساتھ گورنمنٹ میں آئے، چاروں صوبوں میں حکومت تھی، نوازشریف کو حکومت سے نکالا گیا اوروہ جلاوطن ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی حکومت میں آئے ان کو بھی نکال دیا گیا، مقبول ہونا کافی نہیں ہے، سیاسی لیڈران کو خود بھی سوچنا پڑے گا، یہ لیڈر عوام کے درمیان سے نہیں آئے ہوتے، یہ سب ہی کسی نہ کسی راستے سے آئے ہوتے ہیں۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ طیب اردوان کے ساتھ بھی یہی ہونے لگا تھا، ترکی میں بھی انقلاب آ رہا تھا، ترکی میں عوام باہر نکلے اور انہوں نے ناکام بنا دیا، عوامی طاقت سے اردوان کے خلاف بنایا گیا منصوبہ ناکام ہوگیا، اردوان نے لوکل گورنمنٹ میں ڈلیور کیا، اس لئے ان کیلئے عوام باہر نکلے، ہمارے کسی لیڈر نے عوام کی زندگی کو نہیں بدلا۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے مزید کہا ہے کہ ہماری تحریک میں کسی کا ذاتی فائدہ نہیں، یہ تحریک نوجوان نسل کیلئے ہے، دنیا میں یہی دیکھا کہ جب تک اچھی لیڈر شپ نہیں ہوگی ترقی ممکن نہیں، ہمیں اپنے انتظامی یونٹس چھوٹے کرنے ہیں تاکہ آپ کی خدمت کر سکیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے 20 اگست کو سپیریئر یونیورسٹی اور 28 اگست کو یونیورسٹی آف لاہور اور 3 ستمبر کو یونیورسٹی آف فیصل آباد میں تقریب سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے ملک میں نئے صوبے بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔



