اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ جب گورننس کمزور ہوتی ہے تو ادارے بھی کمزور ہوجاتے ہیں، کمزور ادارے کرپشن کو جنم دیتے ہیں، عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے اداروں میں رشوت دینا پڑتی ہے، تجویز ہے کہ پاکستان کے تمام 33ڈویژن کو الگ الگ صوبہ بنایا جائے۔
چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے فاسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں سیمینار ’’2030 کا پاکستان، چیلنج، امکانات اور نئی راہیں‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ترقی پذیر ملک کو بنانے کیلئے 7چیزیں ضروری ہیں جن میں سب سے پہلے پبلک ویلفیئر کا ذکر آتا ہے۔
میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ملک کی عدالتیں انصاف کررہی ہوں، اکنامک اورپولیٹیکل ویلفیئر ہو، ملک کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لوگوں کی ہو، یہ 7 اجزا ماڈل سٹیٹ کے وجود کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے 4 صوبے ہیں اور25کروڑ کا ملک ہے، ملک، صوبے اورشہر بنانے میں اصل کردارپبلک ویلفیئر کا ہی ہے۔
44 فیصد بچوں کو متوازن غذا نہیں مل رہی
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ 2019میں شائع کی کہ چند سال بعد پاکستان کیسا ہوگا، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 127ممالک کے سروے میں ہم 109ویں نمبر پر ہیں، ہمارے ملک میں قتل کے مقدمے پر 16سے18سال لگتے ہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ ہمارے 44فیصد بچوں کی اسٹنٹنگ گروتھ ہورہی ہے کیونکہ متوازن غذا نہیں مل رہی، ہمارے آدھے بچوں کے دماغ اور جسم ڈویلپ نہیں ہورہے، جب ہمارے بچے بڑے ہوں گے تو بے روزگار ہوں گے، ایک فیصد خوش قسمت بچے یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں: نئے صوبے ہی بہتر گورننس، منصفانہ وسائل کی تقسیم کا واحد راستہ ہیں: میاں عامر محمود
ان کا کہنا ہے کہ بے روزگار لوگ ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گے، آدھی آبادی ایسی ہوگی جس کے دماغ اورجسم ٹھیک سے ڈویلپ ہی نہیں ہوں گے، آج یہ کام نہ کیا تو 20سال بعد کا مستقبل بھی خراب کرچکے ہوں گے، ہمیں کسی راستے پر چلنا پڑے گا۔
بھارت کے حالات ہم سے بہت خراب تھے
انہوں نے بتایا کہ بھارت کے حالات ہم سے بہت خراب تھے، بھارت کی یہ حالت تھی کہ وہ سونا دوسرے ممالک میں لے کر جاتا تھا اورقرض لیتا تھا، کبھی آپ بھارت کو 1960سے1991تک پڑھیں تو لگے گا دنیا کا کوئی بھوک سے متاثرہ ملک ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب آندھرا پردیش اورتلنگانہ الگ الگ ہوئے، تقسیم کے وقت آندھرا پردیش کی فی کس آمدن 93ہزار بھارتی روپے تھی، تلنگانہ کی فی کس آمدن 124ہزار بھارتی روپے تھی، 10سال بعد آندھرا پردیش کی فی کس آمدن بڑھ کر 268ہزاربھارتی روپے ہوگئی، آندھرا پردیش کی 3گنافی کس آمدن بڑھ گئی۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے بتایا کہ تلنگانہ کی 10سال بعد فی کس آمدن بڑھ کر 3لاکھ56ہزار بھارتی روپے ہوگئی، تلنگانہ کی 4گنا فی کس آمدن بڑھ گئی، بھارت میں 2ملین بچے سکول نہیں جارہے، ہماری آبادی 25کروڑ ہے اور اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جارہے۔
چھوٹے یونٹس ہوں گے تو آواز وزیراعلیٰ تک پہنچے گی
انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق 70فیصد ایسے بچے ہیں جو ساتویں کلاس میں ہیں لیکن دوسری جماعت کی کتاب نہیں پڑھ سکتے، ہم اپنے صوبوں کی جی ڈی پی کیلکولیٹ ہی نہیں کرتے، ہماری تجویز ہے پاکستان کے تمام 33ڈویژن کو الگ الگ صوبہ بنایا جائے، چھوٹےانتظامی یونٹس ہوں گے تو آپ کی آواز وزیراعلیٰ تک پہنچ سکے گی۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ پنجاب آبادی کا 51فیصد ہے، پنجاب اس وقت باقی 3صوبوں سے بڑا ہے، پنجاب کو سائز اوروسائل کی وجہ سے گالی بھی پڑتی ہے، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے، ہم نے 78 سال میں صرف 5 کیپیٹل سٹی ڈویلپ کیے ہیں، فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، فیصل آباد میں ایک ڈھنگ کا ہسپتال، سکول یا کالج نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نظام تعلیم کو فالو کرنا ایک الگ چیز ہے اورہر جگہ ایک جیسی تعلیم فراہم کرنا ایک الگ چیز ہے، فیصل آباد میں کوئی اچھا کالج نظر نہیں آتا، فیصل آباد والوں کو ہر ضروری کام کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے، آپ جس جگہ پر وسائل لگائیں گے وہاں کی آبادی ہی بڑھے گی، لاہور کی آبادی کم ہونے کی بجائے ہر سال بڑھتی ہے۔
ملک ترقی کرے گا تو نوجوان ترقی کر سکیں گے
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ نوجوان پاکستان کی آبادی کا 64فیصد ہیں، مستقبل میں نوجوانوں کو ہی فرق پڑنا ہے، ملک ترقی کرے گا تو ہی آپ ترقی کرسکیں گے، ملک آگے نہ بڑھنے کی صورت میں کچھ لوگ ہی ترقی کرتے ہیں جو زیادہ نہیں ٹھہرتے، ہماری سوسائٹی آگے بڑھے گی تو ہی عزت سے آگے بڑھ سکیں گے، چاہ رہا ہوں نوجوان میری بات غور سے سنیں ،سمجھیں اورسوالات کریں۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ ہمارے ملک میں چوری اورڈکیتی کے کسی ایک ملزم کوسزا نہیں ہوتی وہ بری ہوجاتا ہے، عدالتوں کو قصور وار نہیں ٹھہراتا، سسٹم یہ اجازت دیتا ہے کہ چوری ڈکیتی کا ملزم بری ہوجائے، سپریم کورٹ کے ایک جج کے پاس 3ہزار سےزائد کیسز ہوتے ہیں، کسی شخص کو عدالتوں سے کام پڑجائے تو اس کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔
سرکاری سکولوں میں میرٹ پر بھرتی، عمارتیں بھی بہتر لیکن پڑھائی نہیں ہوتی
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ پنجاب حکومت ہر ماہ سکولوں کے بچے پر 4400 روپے خرچ کرتی ہے، پنجاب میں 2001کے بعد 100فیصد میرٹ پر بھرتی ہوئی، گورنمنٹ سکولوں کی عمارتیں پرائیویٹ سے بہت بہتر ہوتی ہیں لیکن پڑھائی نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سکول کے بچے پر 4400روپے ماہانہ خرچ کیا جاتا ہے جو نظر نہیں آتا، ہمیں بطور قوم سوال کرنے کی عادت ہی نہیں، ہم بچے کو گورنمنٹ سکول سے ہٹا کر پرائیویٹ سکول میں داخل کرا دیتے ہیں، آپ سکول سے سوال نہیں پوچھتے کہ پڑھائی کیوں نہیں دکھائی دے رہی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب گورنمنٹ لاہور میں بیٹھ کر 50ہزار سکول چلاتی ہے، دنیا کی کوئی بھی تھیوری لگا دیں وہ نہیں چل سکتے، ہمیں یہی دیکھنا ہے کہ بچہ گورنمنٹ سکول میں کیوں نہیں پڑھ پارہا، 78سالوں میں حکومت میں اچھے لوگ بھی آئے ہوں گے اور برے بھی، ہمیں سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
صوبوں کے پاس وسائل اور پیسے ہیں، مینجمنٹ کیپسٹی نہیں
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب گورنمنٹ ہسپتال کے ایک بیڈ پر 60لاکھ روپے لگاتی ہے جو کم نہیں، پیسوں کی نہیں گورننس کی کمی ہے، صوبوں کے پاس وسائل اور پیسے ہیں، اتنی بڑی مینجمنٹ کو مینج کرنے کی کیپسٹی نہیں، ہم کہہ رہے ہیں مسائل کے حل کیلئے چھوٹے صوبے بنیں۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ ہر صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے نوجوانوں اورروزگار کیلئے کام کرے، ہم ووٹ لینے کیلئے نہیں آئے بلکہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ لائے ہیں، ہم اتنے بڑے اداروں کو چلانے کے قابل نہیں، چھوٹے ایڈمنسٹریٹو یونٹس بنانے سے ہمارے ادارے بھی ٹھیک ہوں گے۔
انقلاب دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا بہت بڑا ہتھیار ہے، انقلاب دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے، دنیا میں جہاں بھی انقلاب آئے کسی کو فائدہ نہیں ہوا، ہم کہہ رہے ہیں بیٹھ کر بات کریں اورہمارے مشورے پر غور کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نوجوانوں کے پاس خود جارہے ہیں، نوجوان سوشل میڈیا پر ہمارے سفیر بنیں اوراس کو آگے پھیلائیں، نوجوان اپنی ذمہ داری ضرور پوری کریں کیونکہ اس کے بارے میں پوچھا بھی جائے گا۔
عوام کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک رائے بن جائے تو سب سیاسی پارٹیوں کو ایک پیج پر لایا جاسکتا ہے، سیاسی پارٹیوں نے ووٹ کیلئے آپ کے پاس ہی آنا ہے، عوام کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، آپ ایک چیز پر متحد ہوں تو کوئی سیاسی پارٹی اس کورد نہیں کرسکتی۔
میاں عامر محمود نے طالبعلم کے سوال پر کہا کہ ہم ایک گروپ ہیں جنہوں نے اس تحریک کیلئے سوچا اورکام کیا، ہمارے33ڈویژن ہیں،اگر آپ ان 33 ڈویژن کی باؤنڈریز کو چھیڑیں گے تو پھر اس پر اتفاق نہیں ہوگا، جب لوگ قومیت کو درمیان میں لاتے ہیں تو انتشار پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ 33ڈویژن کئی صدیوں سے ایسے ہی چل رہے ہیں، ہم کہہ رہے ہیں اس کمشنر کو چیف سیکرٹری بنادیں، ہم کہہ رہے ہیں اس آر پی او کو آئی جی بنادیں، یہ 33ڈویژن پہلے سے بنے ہوئے ہیں اورچل رہے ہیں اس لیے ہم ان کی بات کررہے ہیں۔
33 صوبے ہوں تو کسی کے 33 بیٹے یا بھائی نہیں ہوں گے
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ اگر ایک بندے سے 13کروڑ کا صوبہ کنٹرول نہیں ہورہا تو اس میں زیادہ لوگ لگادیں، آپ اس صوبے میں ایک وزیراعلیٰ کی جگہ 9وزیراعلیٰ لگادیں تاکہ وہ کنٹرول کرسکیں، کنٹرول مناسب لفظ تو نہیں، زیادہ لوگ اس صوبے کو ڈویلپ کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب 33صوبے ہوں گے تو کسی کے 33بیٹے یا بھائی نہیں ہوں گے پھر ان کو سیاسی ورکرز کی ضرورت پڑے گی، اگر کسی نے ایک صوبے میں اچھا پرفارم کردیا تو وہ ترقی بھی کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں ایک چائے بیچنے والا کارکردگی پر وزیراعظم بن گیا، پرفارمنس کی بنیاد پر آگے آنے والا چاہے پھر کسی بھی خاندان سے ہو،عوام کیلئے تو کچھ کرے گا، دنیا میں ہمیشہ مڈل کلاس سے آنے والا لیڈر ہی کامیاب ہوا ہے، دنیا میں زیادہ لیڈر مڈل کلاس سے ہی آتے ہیں اورکامیاب بھی وہی ہوتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے سامنے آپ کے مسائل کا حل رکھ رہے ہیں، اگر 44فیصد بچے اسٹنٹنگ گروتھ پر ہیں تو مجھے کیا فرق پڑتاہے؟ سوچنے کی بات ہے آج فرق پڑتا ہے، اگر آج نہیں فرق پڑ رہا تو 20سال بعد ضرور فرق پڑے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صوبے بننے چاہئیں تو یہ مسئلہ سینیٹ اورقومی اسمبلی میں بھی جائے، دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنے بڑے صوبے نہیں ہیں، ہم وہ واحد ملک ہیں جس میں اتنے بڑے صوبے ہیں۔
آگے بڑھنے کیلئے ہمیں اپنے کردار پر محنت کرنا پڑے گی: چودھری عبدالرحمان
قبل ازیں چیئرمین ایپ سپ چودھری عبدالرحمان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قومیں امیر نہیں جن کے پاس سونا ہے، وہ قومیں امیر ہیں جن کے پاس نوجوان ہیں، پاکستان میں 60سے65فیصد نوجوان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آج وہی یونیورسٹیاں آگے ہیں جو ٹیکنالوجی کی تعلیم دے رہی ہیں، اس اے آئی کے دور میں ہم بہت آگے چلے گئے ہیں، آج ہم آپ کے سامنے ایک نیا مقدمہ رکھنے آئے ہیں، غور کرنا ہے کیا ہم آج تعلیمی اداروں میں اچھے انسان بنا پا رہے ہیں یا نہیں؟
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج آپ کا کریکٹر نہیں تو کچھ نہیں، طلبہ نے سوچنا ہے ہم نے ملک، سوسائٹی اور خاندان کیلئے کیا کرنا ہے، آگے بڑھنے کیلئے ہمیں اپنے کردارپر محنت کرنا پڑے گی۔
چودھری عبدالرحمان نے کہا کہ میاں عامر محمود اورڈاکٹر آفتاب جیسے لوگ ہمارے ہیروز ہیں، میاں عامر محمود کو قوم کے محسن کے طور پر جانتا ہوں، میں نے اپنا رول ماڈل میاں عامر محمود کو بنایا ہے، میاں عامر محمود نے قوم کو 400 کالجز اور3یونیورسٹیوں کا تحفہ دیا ہے۔