لاہور: (دنیا نیوز) معروف صحافی، ادیب اور بلند پایہ کے خطیب آغا شورش کاشمیری کی آج 50ویں برسی منائی جا رہی ہے۔
تحریک ختم نبوت آغا شورش کاشمیری کی زندگی کا عظیم اثاثہ تھا، آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے، 14 اگست 1917ء کو لاہور میں پیدا ہونے اس عظیم ادیب کا اصل نام عبدالکریم تھا لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مقبول ہوئے، انہوں نے 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کروایا اور قادیانیوں کو خارج الاسلام قرار دینے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
آغا شورش کاشمیری کی سیاسی، علمی اور ادبی تربیت کا آغاز گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار سے ہوا، سکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا جہاں انہیں مولانا ظفر علی خان کی قربت میسر آ گئی، مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت اور عشق خاتم النبیؐ آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتا چلا گیا جس کے بعد شورش بھی برصغیر کے منفرد خطیب مانے جانے لگے۔
آغا شورش کاشمیری نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ساڑھے 12 سال قید و بند کی صعوبتیں کشادہ دلی سے برداشت کیں، شورش کاشمیری تحریک پاکستان میں تو نہ تھے مگر تعمیر پاکستان میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، ان کا علمی، ادبی اور سیاسی جریدہ ’’چٹان ‘‘ بلاشبہ اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ بنا۔
آغا شورش کاشمیری کی تصانیف میں فیضان اقبال، چہرے، قلمی چہرے، فن خطابت، موت سے واپسی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، تحریک ختم نبوت، مولانا ظفر علی خان، اقبال اور قادیانیت اور خطبات احرار نمایاں ہیں، آغا شورش کاشمیری 25 اکتوبر 1975ء کو لاہور میں انتقال کر گئے اور میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔



