تحریر: (محمد اسلم پرویز) خوراک کے معاملے میں عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ جتنا کھایا جائے گا اتنی ہی صحت اچھی رہے گی۔ انسانی صحت کو محض اس زاویے سے دیکھنا آدھی حقیقت جاننے کے مترادف ہے۔ جہاں یہ ضروری ہے کہ پیٹ بھر کر خوراک ہر انسان کو میسر ہو، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ یہ خوراک بھی مطلوبہ اجزا پر مشتمل ہو۔
اگر ہماری خوراک میں ضروری اجزا نہیں ہوں گے تو ہماری خوراک نامکمل اور جسمانی ضروریات کے لحاظ سے تشنہ ہو گی۔ ایسی نامکمل اور غیر متوازن خوراک اگرچہ پیٹ کی آگ بجھا دیتی ہے لیکن جسمانی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بالوں کا گرنا، دانت کمزور ہونا، جسم میں درد کی شکایت، ہڈیوں کی کمزوری، منہ کے چھالے، بدہضمی، تیزابیت، نظر کم زور ہونا، جلد پر دھبے ابھرنا وغیرہ کچھ ایسی بیماریاں ہیں جو کہ غذائی اجزا کی کمی کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارے جسم کو کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چکنائی، وٹامن، نمکیات اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس غذا میں یہ تمام اجزا صحیح مقدار میں موجود ہوں، اس کو متوازن غذا کہتے ہیں۔ ان کی مقدار کا تعلق انسان کی صحت، جنس، عمر اور مشغولیت سے ہوتا ہے۔ ان اجزا میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چکنائی اور پانی بہ نسبت دیگر اجزا کے، زیادہ مقدار میں درکار ہوتے ہیں۔ کاربوہائیڈریٹ ہمیں اناجوں مثلاً گیہوں، چاول، مکئی، باجرا، جو، جوار، اور جئی سے ملتا ہے۔ نیز آلو، شکر قند، سوجی، میدہ شفتالو اور ان سے بنی چیزوں سے ہمیں دستیاب ہوتا ہے۔ شکر بھی کاربوہائیڈریٹ ہی کی ایک قسم ہے اس لیے شکر ہمیں مٹھاس کے علاوہ توانائی بھی دیتی ہے۔ تاہم فربہ آدمیوں کو شکر لینے سے روکا جاتا ہے تاکہ ان کے جسم کو مزید ایسی غذا نہ ملے جو موٹاپے کو بڑھا دے۔ پروٹین ہمیں گوشت، انڈے، دودھ، سویا بین اور تمام دالوں سے ملتے ہیں۔
چربی یا چکنائی کو ہم مکھن، دودھ، گھی، تیل، مغزیات، گوشت اور دیگر چکنی چیزوں سے حاصل کرتے ہیں۔ خوراک کے یہ عناصر عام طور پر ہر اوسط خوراک میں شامل ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی زیادتی بھی امراض پیدا کرتی ہے۔ مثلاً شکر کا زیادہ استعمال دانتوں کے لیے، ہاضمے کے لیے نیز جگر کے لیے نقصان دہ ہے۔ چکنائی کے زیادہ استعمال کے باعث ہارٹ اٹیک اور بلڈ پریشر جیسے خطرناک مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ان اجزا کی مطلوبہ مقدار جسم کو نہیں ملتی تو اس سے کئی خطرناک امراض پیدا ہوتے ہیں۔ معاشی طور پر کمزور طبقے میں عموماً اناجوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے افراد میں پروٹین کی کمی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے بچے اس کی کمی کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جسم کی بڑھوتری اور نشوونما کے لیے پروٹین کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بچے محض روٹی یا چاول کھا کر گزارا کرتے ہیں تو ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ ایسے بچے کا نہ صرف جسم بلکہ ذہن بھی کمزور رہتا ہے۔