فضائی آلودگی خوشی کی دشمن؟

Last Updated On 11 February,2019 01:39 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) ملکوں کی خوشحالی کا معیار کل ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کو سمجھا جاتا ہے۔ البتہ وقت کے ساتھ ایک بات واضح ہوئی ہے۔ لازم نہیں کہ معاشی ترقی انفرادی خوشیوں کو بھی بڑھا دے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔

ایک یہ کہ ملکوں کے امیر ہونے کے عمل میں ماحول متاثر ہوتا ہے مثلاً سرسبز علاقے کم ہوتے ہیں اور ہوا کا معیار گھٹ جاتا ہے۔ پارکوں اور ساحلوں کی سیر کے ذہنی صحت پر مثبت اثرات کو تو ماہرِ نفسیات پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں۔

اب فضائی آلودگی کے ذہنی صحت اور انسانی خوشی پر پڑنے والے اثرات زیرِ تحقیق ہیں۔ شیرخواروں میں تنفس کی بیماریوں سے ہونے والی اموات جانی مانی حقیقت ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال 70 لاکھ افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بہت سے افراد دائمی امراض کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ اب فضا کے معیار اور ذہنی صحت و خوشی کے درمیان براہ راست تعلق کے شواہد ملے ہیں۔

یہ شواہد مختلف ممالک میں ہونے والی تحقیقات سے ملے۔ ان تحقیقات میں متعدد افراد کا ایک عرصہ تک جائزہ لیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ وہ جس فضا میں سانس لیتے ہیں، اس میں آلودگی کم ہونے سے وہ زیادہ خوش رہنے لگے۔ ایک مثال جرمنی میں واقع بڑے پاور پلانٹ کی ہے۔

وہاں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے مخصوص آلات نصب کیے گئے۔ تحقیق سے پتا چلا کہ ہوا کے معیار میں بہتری سے نزدیکی آبادی زیادہ پُرمسرت زندگی بسر کرنے لگی۔ فضا اور خوشی کے درمیان تعلق تلاش کرنے کے لیے ماہرینِ معاشیات اور سائنس دان نئے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر حال ہی میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق جریدہ ’’نیچر ہیومن بیہیویئر‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس میں 21 کروڑ ایسے پیغامات کا جائزہ لیا گیا جن کے ساتھ مقام بھی درج تھا یعنی وہ ’’جیوٹیگڈ‘‘ تھے اور چین میں ٹویٹر کے متبادل ’’سینا ویبو‘‘ پرجاری ہوئے تھے۔

چونکہ ان پیغامات کے مقام، وقت اور ان افراد کے خوش یا اداس ہونے کا پتا لگایا جا سکتا تھا ان لیے ان کا تعلق فضائی آلودگی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا گیا۔ 144 چینی شہروں کے ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ جب شہروں میں فضائی آلودگی زیادہ ہوتی ہے تو خوشی کا اظہار کم ہو جاتا ہے۔

شہریوں کی فلاح عوامی پالیسی کا ایک اہم مقصد ہوا کرتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے زیادہ توجہ مادی فلاح پر دی جاتی ہے۔ اب بہت سے سماجی سائنس دان زور دے رہے ہیں کہ لوگوں کی سوچ اور احساس کو فلاح کے زمرے میں شامل کرنا چاہیے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مادی عوامل، جیسا کہ آمدن یا جسمانی صحت کو نظرانداز کر دیں لیکن سماجی فلاح کو کلی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماحولیات کی تباہی اور فضائی آلودگی میں اضافے کو فلاح کے تصور سے جوڑنا چاہیے۔ اسی سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔