معتبر معلومات تک رسائی، آج بھی اہم مسئلہ

Published On 25 October,2022 04:18 pm

لاہور:(روزنامہ دنیا) اس مرتبہ ہفتے کی میزبانی نائیجیریا کے پاس ہے اور یہ ابو جا میں منعقد ہو رہا ہے وفود کی آمد کیساتھ ساتھ دنیا بھر سے متعلقہ فورم بھی آن لائن شریک ہوں گے، گلوبل میڈیا اینڈ انفرمیشن لیڑیسی کا ہفتہ 24 سے31 اکتوبر تکاس ہفتے کو منانے کا فلسفہ یہ ہے کہ معلومات کے ماخذ کا علم ہو سکے، اگر آپ 1990کے بعد پیدا ہوئے ہیں تو آپ نئی نسل کی زی (Z) برانڈ ہیں۔ زی جنریشن وہ ہے جس نے پیدا ہوتے ہی کمپیوٹر اور موبائل کو اپنے پاس موجود پایا۔ ان کے کھلونے ڈیجیٹل ڈیوائسز تھے۔

بعد ازاں یہی کھلونے ان کی زندگی کا ناگزیر حصہ بن گئے ہیں۔ زی جنریشن اپنے زیادہ تر امور کو مینوئل کے بجائے ڈیجیٹل طریقے سے کرنے کی خواہاں ہے۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز پر مصروف زی جنریشن کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ کوئی اپنا وقت محض سوشل میڈیا اور تفریح میں ضائع کررہا ہے۔ کوئی نوجوان اپنی ایجوکیشنل اسائنمنٹس پوری کررہا ہے اور کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے بیٹھے بٹھائے لاکھوں کما رہے ہوتے ہیں۔ زی جنریشن بڑی تیزی سے مقبول عام ایپس کے ذریعے کمائی کر رہی ہے۔ کروڑوں ڈالر گھر بیٹھے موبائل اور کمپیوٹر کے ذریعے کمانے والی نسل نہ صرف اپنا اور اپنے گھر والوں کا معیار زندگی بہتر بنا رہی ہے بلکہ ڈالرز اور پونڈز کی شکل میں آنے والے زر مبادلہ ملکی معیشت کو بھی سہارا دے رہی ہے۔

پاکستان کا شمار فری لانسنگ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کمائی کرنے والے دنیا کے پہلے 5ممالک میں ہوتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے پاکستانی نوجوان کم ازکم 60 کروڑ ڈالر کمارہے ہیں۔ ریکارڈ پر نہ آنے والی کمائی اس کے علاوہ ہے۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ( OIL) کے شائع کردہ آن لائن لیبر انڈیکس میں فری لانسنگ کے لیے پاکستان کا درجہ چوتھے مقبول ترین ملک کے طور پر ہے۔ انٹرنیٹ کمیونیکیشنز اینڈ ٹیکنالوجی (ICT) کی پاکستان میں آؤٹ سورسنگ بہت عام ہے۔ بہت سے لوگ گھر سے کام کرتے ہیں اور اچھی رقم کماتے ہیں۔

امریکہ اگر سپر پاور کے طور پر دنیا پر راج کر رہا ہے تو اس کا ایک سبب اس کی دیوہیکل کمپنیاں ہیں جنہوں نے کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ ان ملٹی نیشنل اور ملٹی بلین ڈالر کمپنیوں میں اکثریت کا تعلق انفرمیشن ٹیکنالوجی سے ہے۔ گوگل، مائیکرو سافٹ، ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ اور اس نوع کی دیگر کمپنیوں کے بغیر آج دنیا خود کو تہی دست و تنہا محسوس کرتی ہے اور جڑے رہنے کی ضرورت یا لت کے پیش نظر انٹرنیٹ پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کمائی کے ان گنت طریقے اپنائے جارہے ہیں۔ ایک طریقہ کونٹینٹ کے ذریعے کمائی ہے۔ کونٹینٹ سے مراد ایسا ملٹی میڈیا مواد ہے جسے دیکھنے، پڑھنے یا سننے کے لیے لوگ کسی پلیٹ فارم پر آئیں جو اس کے بدلے میں کونٹینٹ بنانے والے کو پیسے ادا کرے۔ یہ کونٹینٹ ویڈیوز، تصاویر، آڈیوز، بلاگنگ یا وی لاگنگ جیسا کوئی بھی تخلیقی کام ہوسکتا ہے جس کی مارکیٹ میں مانگ ہو۔ اس کے علاوہ کمائی کا ایک ذریعہ ای کامرس یا انٹرنیٹ کے ذریعے خرید و فروخت ہے۔ جہاں پر آپ کو بغیر کسی دکان، فیکٹری یا کسی قسم کا کاروباری ڈھانچہ بنائے بغیر آن لائن اشیاء کی خرید و فروخت کا موقع ملتا ہے۔ صرف پاکستان میں اس وقت پاکستان میں اس وقت آٹھ کروڑ انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ اس میں سے تقریبا 5 کروڑ لوگ اس وقت صرف فیس بک پر ہیں۔

جن میں سے پچاس فیصد جنریشن زیڈ ہے۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صرف پاکستان کے اندر سوشل میڈیا کی مارکیٹ کتنی بڑی ہے۔ دیہات میں رہنے والے بہت سے لوگ بھی کامیابی سے اپنے یو ٹیوب چینلز چلارہے ہیں اور ان کے لاکھوں سبسکرائبرز ہیں۔ اس طرح لاکھوں انسان انفرمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اور عالمی معیشت کا اہم عنصر ہیں۔

اسے خوش بختی کہیں یا بدقسمتی قرار دیں مگر یہ حقیقت ہے کہ انسانوں سے جڑے حقوق اور ان کے تحفظ کی آ وازاترقی یافتہ ممالک یا اقوام متحدہ کی جانب ہی سے بلند ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کو بیسیوں زمروں میں بانٹ کر ان کا الگ تشخص قائم کرنا اور پھر عالمی دن منانا سونے پہ سہاگا ہے۔ ہر سال ایک خاص دن منانے سے کوئی بھی موضوع فراموش ہونے سے بچ جاتا ہے اور نئی نسل اس کی اہمیت سے آگاہ ہو جاتی ہے۔ انسانی حقوق میں ایک تازہ اضافہ میڈیا اینڈ انفرمیشن لٹریسی کا ہے۔ جاننے کا حق تو پرانی بات ہوئی، اب جاننے کے عمل میں مددگار ذرائع اور وسائل کو یقینی بنانا بھی انسانوں کا حق ٹھہرا۔ عالمی میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی کا عالمی ہفتہ 24 سے 31 اکتوبر تک منایا جارہا ہے۔

عالمی ادارے کی تحقیق ہے کہ اگرچہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر لاکھوں لوگ اب بھی معیاری اور معتبر معلومات تک رسائی سے محروم ہیں۔ اس موضوع پر ہفتہ منانے کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو آگاہی دینا ہے کہ انفرمیشن کے ساتھ ساتھ اس کے حصول کے ذرائع بھی قابل رسائی ہونے چاہئیں۔ ان میں انٹرنیٹ، انٹرنیٹ سے چلنے والی ڈیوائسز اور ان دونوں کے استعمال میں معاون قوانین اور ضوابط کو سہل بنانا ضروری ہے۔اس بار گلوبل میڈیا اینڈ انفرمیشن لٹریسی (MIL) ہفتے کی میزبانی نائیجیریا کے پاس ہے اور یہ ابوجا میں منعقد ہو رہا ہے۔ وفود کی آمد کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے متعلقہ فورمز آن لائن شریک ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس ایم آئی ایل منانے میں بڑے پر جوش نظر آتے ہیں اور وہ عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ MIL کے ساتھ وابستہ ہوں اور دوسروں کو بھی اس کیلئے آمادہ کریں۔ تقریبات، نمائشیں، ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کرکے اس معاملے کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ اس ہفتے کو منانے کی منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی۔ جنرل اسمبلی میں اتفاق کیا گیا کہ سب انسانوں کا یہ حق ہے کہ ان کو حقائق پر مبنی معلومات بروقت دستیاب ہوں۔ ان معلومات کا معتبر، شفاف، فوکسڈ اور قابل فہم زبان میں ہونا بھی ضروری ہے۔ جنرل اسمبلی نے قرارا دیا کہ معلومات اور معلومات کے ذرائع تک رسائی میں مختلف ممالک میں عدم مساوات نظر آتی ہے جسے دور کرنا از حد ضروری ہے۔ ہر فرد کو ذرائع ابلاغ اور معلومات کی خواندگی کی مہارتوں سے لیس ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دور جدید کے چیلنجوں سے نبٹ سکے۔

اس ہفتے کو منانے کا فلسفہ یہ ہے کہ معلومات کے ماخذ کا علم ہو سکے۔ افراد، میڈیا، لائبریریاں، آرکائیوز، عجائب گھر، پبلشرز اور دیگر ذرائع معلومات کا منبع ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ ان ذرائع تک رسائی دیتا ہے۔ دنیا بھر میں معلومات اور مواصلات تک رسائی میں ڈرامائی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ میڈیا اینڈ انفرمیشن لٹریسی (MIL) ان سوالات کے جوابات فراہم کرتی ہے جو ہم سب کسی نہ کسی موقع پر خود سے پوچھتے ہیں۔ آن لائن اور آف لائن مواد تک رسائی، ریسرچ، تنقیدی جائزہ، آن لائن اور آف لائن حقوق، معلومات تک رسائی اور استعمال سے متعلق اخلاقی مسائل ان سب کا جاننا اس ہفتے کو منانے کا بنیادی مقصد ہے۔ آن لائن اور آف لائن حقوق وہ معاملات ہیں جن کا خیال رکھنا اخلاقیات کا حصہ ہے۔اگر کوئی صارف اپنی معلومات اخفا رکھنا چاہتا ہے تو اس کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہئے۔ جس طرح کسی کے گھر میں جھانکنا جائز نہیں اسی طرح بلاوجہ کسی کے ڈیٹا اور مواد میں نقب زنی بھی غلط ہے۔ انفرمیشن اور اس سے متعلقہ ٹیکنالوجی پر ہر کسی کا حق ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں کا احترام کیا جائے اور ایم آئی ایل کو انسانیت کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے۔

آ ج کی دنیا میں انفرمیشن فراہم کرنے والے ذرائع واقعی اہم ترین ہوگئے ہیں۔آپ ذرا تصور کریں کہ آپ کا سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ آپ سے ایک دو روز کیلئے واپس لے لیا جائے تو آپ کی زندگی کا رنگ کیا ہوگا۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز سے ہمیں سب سے زیادہ لگاؤ جتنا آج ہے عشرہ ڈیڑھ عشرہ پہلے نہ تھا۔ فون گھر بھول جانے والے آدھے راستے سے گھر واپس آجاتے ہیں اور پھر موبائل جیب میں ڈال کر یوں محسوس کرتے ہیں گویا جس شے کی زندگی میں کمی تھی وہ مل گئی۔ موبائل اور کمپیوٹر پہ کچھ لوگوں کار روزگار بھی ہوتا ہوگا لیکن جتنا نشہ سوشل میڈیا کا ہے کسی اور چیز کا نہیں۔ آج کے دور میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹ نہ ہوں، روز ہی لوگ چیٹنگ، پوسٹس، لائیکس، ٹویٹس، شیئر، ری ٹویٹس سمیت کئی مواصلاتی کلِک کرتے ہیں جو بہت اہمیت کا حامل ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت ملنسار اور رکھ رکھاؤ والی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سوشل ہے۔ لیکن سوشل میڈیا ہمیشہ سوشل نہیں ہوتا۔ اس کا بے احتیاطی سے استعمال صارف کیلئے پیچیدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ فیس بک ہو، ٹوئٹر، انسٹاگرام یا کوئی اور، ان کے استعمال کے کچھ اصول ہیں جن پر عمل کیا جائے تو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

تحریر : انور خان لودھی